گلگت ( کرن قاسم ) دنیور مچوکال کے علاقے میں گزشتہ 2 سالوں سے ایک خطرناک قسم مویشی خور جانور کی موجودگی کا انکشاف ایک ہی علاقے کے حدود میں اب تک 12 سے زائد پالتو مویشیوں کا شکار کر چکا ہے لیکن حکومت کو اس خطرناک جانور بابت عوام کی طرف سے متعدد بار آگاہ کرنے کے باوجود آوارہ کتوں کی واردات قرار دیا جا رہا ہے گزشتہ شب سب ڈویژن دنیور کے علاقے مچوکال میں علی احمد جان نامی غریب شخص کے مویشی خانے میں گھس کر مویشی خور جانور نے 3 قیمتی بھیڑوں کو کھا کر رفو چکر ہو گیا جبکہ اس قبل 2023 میں اسی علاقے مچوکال میں چیئرمین شوکتِ علی فیملی کے ایک محنت کش نوجوان کے مویشی خانے میں گھس کر 6 سے زائد مویشیوں کو کھا گیا جبکہ اسی علاقے میں ہی دیگر 5 سے زائد مختلف پالتو جانوروں کا شکار کرچکا ہے دنیور کے ایک ہی علاقے میں مسلسل اس طرح کے واقعات رونما ہونے پر لوگوں کے اندر ایک خوف و ہراس پیدا ہو چکا ہے جبکہ مچوکال مکینوں کا اوصاف سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ پالتو جانوروں کو کھانے والا اس خطرناک جانور کو متعدد بار اپنے اپنے مویشی خانوں میں رات بھر پہرہ دیتے رہے ہیں لیکن نظر نہیں آتا جب پولیس میں رپورٹ درج کرائی جاتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ آوارہ کتوں کی ہی واردات ممکن ہے جلد کتا مہم کا آغاز کیا جائے گا جبکہ اس دوران بعض بزرگوں نے اوصاف سے بات چیت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مویشی خانے کی 10 فٹ اونچی دیوار پھلانگ کر جانوروں کو نقصان پہنچانے والا کتا نہیں ہو سکتا کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی کتا 5 فٹ سے زیادہ اونچائی پر چھلانگ نہیں لگا سکتا دوسری بات کہ کتا جس جانور کا شکار کرنے میں کامیاب ہوتا وہ اسی کا گوشت کھا کر پیٹ بھر کے نکل جاتا ہے جبکہ یہاں گزشتہ 2 سالوں سے جو جانور پالتو جانوروں کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ ایک سے زائد مویشیوں کا خون پیکر چلا جاتا ہے خون پینے والا جانور جنگل کا شکاری جانور ہوتا ہے وہ مویشی کا شکار کے دوران پیٹ پھاڑ کر قابو کر لیتا ہے جس کی وجہ سے ان تمام بھڑوں کے پیٹ پھٹنے کے نشانات ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مویشی خانوں کی اونچی دیوار پھلانگ کر جانوروں کو نقصان پہنچانے والا جانور کتا نہیں بلکہ کوئی خطرناک قسم شکاری جنگلی جانور ہی ممکن ہے اگر اس معاملے پر فوری طور غور نہیں کیا گیا تو آج مویشیوں کو نقصان پہچایا ہے کل کو انسانوں کو بھی نقصان پہنچانے کا خدشہ ہے۔