اہم ترین

سات اہم منصوبوں کی منظوری

ورکنگ ڈویلپمنٹ پارٹی کا اجلاس

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کے زیر صدارت گلگت بلتستان ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے پہلے اجلاس میں محکمہ برقیات کے 7منصوبوں کی منظوری دی جن کی لاگت 6ارب 56 کروڑ 39 لاکھ 37ہزار ہے اور اجلاس میں محکمہ مواصلات و تعمیر ات عامہ کے4منصوبوں کی منظوری دی جن کی مجموعی لاگت 2 ارب 20 کروڑ 85 لاکھ ہے۔ اجلاس میں 3.5میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہمرن بلچھار بگروٹ منصوبے کی ریویجن جس کی لاگت 99 کروڑ 82لاکھ 77ہزار ہے محکمے کی جانب سے پیش کیا گیاجس پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے منصوبے کا سائٹ وزٹ کرنے اور اس منصوبے کے حوالے سے انکوائری کو جلد مکمل کرنے سے مشروط منظوری دی، 3.5 میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ مقپون برج تا(2میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سوق اور ایک میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کچوار سکردو موڈیفیکیشن) کا منصوبہ پیش کیا گیا جس پر فورم نے 2 میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سوق کی منظوری دی جس کی لاگت 99 کروڑ 99لاکھ 64ہزار ہے، 2میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اشکومن غذر لاگت 97 کروڑ78لاکھ 49ہزار فورم میں پیش کیا گیا جس پر منصوبے کے اضافی کام کو ری ٹینڈر کرکے مکمل کرنے کی منظوری دی گئی، 2میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ لچھت لاگت 86کروڑ 65 لاکھ 26 ہزار فورم میں پیش کیا گیا جس کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں ایک میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ بلغار ڈوغنی جی بی اے 22 گانچھے۔ 1(فیزI سول ورک) لاگت 65کروڑ 64 لاکھ 21ہزارکا منصوبہ پیش کیا گیاجسے منظور کیا گیا، اجلاس میں ایک میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہائیڈل سٹیشن شگر فیزIIتا 1.5 میگاواٹ فیزIجی بی اے 12شگرلاگت 52 کروڑ 48 لاکھ کا منصوبہ فورم میں پیش کیا گیا جس کی منظوری دی گئی، 3میگاواٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ مہدی آباد فیزIIIکھرمنگ لاگت 1 ارب 54کروڑ 37ہزار کو فورم میں پیش کیا گیا جس کی سی ڈی ڈی ڈبلیو پی سے حتمی منظوری کیلئے سفارش کی گئی۔ اجلاس میں محکمہ مواصلات و تعمیرات عامہ کی جانب سے بلتستان ریجن میں معلق پلوں کی آر سی سی پلوں میں تبدیلی کے منصوبے کی ریویجن کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کی لاگت 54 کروڑ 59 لاکھ ہے جسے منظور کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں زمینوں کے معاوضوں کی ادائیگی کا منصوبہ لاگت 67 کروڑ 61لاکھ پیش کیا گیا جس کی منظوری دی گئی۔ آر سی سی پل ڈگری کالج ہاتون غذر کے ریویجن کا منصوبہ فورم میں پیش کیا گیا جس کی لاگت 49 کروڑ 38 لاکھ ہے جس کی فورم نے منظوری دی۔ چھومک پل تا لمسہ شگر روڈ کے ریویجن کا منصوبہ لاگت 49 کروڑ 27 لاکھ جس کی منظوری دی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہاکہ اے ڈی پی اور پی سی 1 کی رقم میں بہت زیادہ فرق موجود ہے۔ مستقبل کیلئے ایسی حکمت عملی مرتب کی جائے جس کے تحت اس تفریق کو برابر کیا جا سکے۔ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے 3 سے 5 سال کی مدت مقرر ہوتی ہے۔ منصوبوں کو مقررہ مدت میں ٹائم لائن کے مطابق مکمل کیا جائے۔ منصوبوں میں تاخیر سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے اور عوام بھی ان منصوبوں کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں میں محکموں کی جانب سے پی سی 1 کے علاوہ اضافی کام شامل کیا جاتا ہے جو غیر قانونی ہے۔ اضافی کام کو شامل کرنے سے اصل منصوبہ التواء کا شکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے تحقیقات کرے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ منصوبوں کے پی سی 1 میں کنسلٹنسی کے نام پر خطیر رقم مختص کی جاتی ہے جس کی وضاحت درکار ہے۔ متعلقہ محکموں کی جانب سے مناسب اور حقائق پر مبنی فزیبلٹی تیاز نہ کرنے اور کاسٹ اسٹیمیٹ / کیش پلان اور ورک پلان پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے اکثر منصوبوں کو ریویجن درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا محکموں کو پابند کیا جائے کہ فزیبلٹی اور پی سی 1 حقائق پر مبنی ہوں۔ زمینوں کے معاوضوں میں اضافے کی وجہ سے بھی اکثر منصوبوں کو روائز کرنا پڑتا ہے۔ منصوبوں کیلئے درکار زمینوں کے حصول کیلئے تعین کردہ TORS کے تحت سائٹ سلیکشن سیکشن 4 کا نفاذ اور زمین کے حصول کے عمل کو مقررہ ٹائم لائن کے مطابق یقینی بنایاجائے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ برقیات کے منصوبوں میں دیکھا گیا ہے کہ بیشتر منصوبے ناقص منصوبہ بندی اور آفیسران کی نااہلی کی وجہ سے التواء کا شکار ہوتے ہیں جس کو بار بار ریویجن کرایا جاتا ہے، نااہل آفیسران اور ٹھیکیداروں کی نااہلی سے علاقے کو نقصان ہورہاہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی ابتداء میں ان منصوبوں کیلئے درکار زمین کے حصول کیلئے معاوضے مقرر ہوتے ہیں لیکن معاوضوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے سے زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے ترقیاتی عمل کو متاثر کرنے اور نااہل اور ٹھیکیداروں کیساتھ ملی بھگت کی وجہ سے منصوبوں کی ریویجن کا باعث بننے والے ملازمین کیخلاف سخت قانون کارروائی عمل میں لائی جائے اور منصوبوں کی غیر ضروری ریویجن کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جائے۔ وزیر اعلیٰ نے سیکریٹری برقیات کو ہدایت کی کہ محکمے میں ایسے آفیسران کیخلاف بلاتفریق محکمانہ کارروائی کی جائے جن کی وجہ سے گزشتہ 10 سالوں سے پاور کے اہم منصوبے التواء کا شکار ہیں۔ محکمے میں جزاء و سزاء کا سخت نظام نافذ کیا جائے۔ چند نااہل ملازمین اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے گلگت بلتستان کو مردہ منصوبوں کا مرکز نہیں بننے دیں گے۔ منصوبوں کی غیر ضروری ریویجن اور عرصہ دراز سے التواء کا شکار ہونے پر صرف انکوائریاں آرڈر کی جاتی ہے جن کو تکمیل تک نہ پہنچانے اور نااہل آفیسران کیخلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام متاثر ہورہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر ہدایت کی کہ جی بی ڈی ڈبلیو پی فورم میں منصوبے پیش کرنے سے قبل نچلی سطح کے فورمز پر ان منصوبوں کی مکمل جانچ پڑتال اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے ملازمین کیخلاف جزاء و سزاء کا تعین کرنے کے بعد جی بی ڈی ڈبلیو پی میں منصوبوں کو پیش کیا جائے۔ سکردو میں بجلی کے بحران کی وجہ سے عوام شدید مشکلات سے دوچار ہیں لیکن سکردو کیلئے زیر تعمیر منصوبوں میں چند نااہل ملازمین کی وجہ سے منصوبے التواء کا شکار ہورہے ہیں۔ سیکریٹری برقیات ایسے نااہل ملازمین کیخلاف بلاتفریق سخت کارروائی کریں۔ منصوبوں کے پی سی ون کی تیاری اور ڈرائنگ ڈیزائننگ کے عمل کو حقیقت پر مبنی بنایا جائے۔ دفاتر میں بیٹھ کر ناقص پی سی ون کی تیاری کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کا ریویجن کرنا پڑتا ہے۔ جن منصوبوں کی التواء میں ٹیکنیکل سٹاف کی نااہلی ثابت ہو ان کیخلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے۔ متعلقہ فورمز کی منظوری کے بغیر پی سی ون کے علاوہ اضافی کام کرنا غیر قانونی ہے لہٰذا تمام محکمے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ترقیاتی منصوبوں میں پی سی ون کے مطابق کام کریں۔ بغیر منظوری کے اضافی کام شامل کرنے والے آفیسران کیخلاف بھی محکمانہ کارروائیاں شروع کی جائیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے درکار زمین کے حصول کے باوجود زمین کے معاضوں کی ادائیگی کیلئے رقم مختص نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین عرصہ دراز سے مختلف دفاتر کے چکر لگارہے تھے، بیشتر ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کرکے اپنے حق میں بھی فیصلے لئے تھے۔ موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ سرکاری منصوبوں کیلئے حاصل کئے جانے والے زمینوں کی معاوضوں کی ادائیگی کیلئے خطیر رقم اس سال کے اے ڈی پی میں مختص کی ہے جس سے عرصہ دراز سے متاثر لوگوں کا مسئلہ حل ہوا ہے۔ اسی مد میں تمام اضلاع کیلئے 67 کروڑ 61لاکھ کی منظوری دی جارہی ہے۔

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button