عوامی مسائل

چور نے چپل اتار لیے اور فرار

چوروں نے چپل بھی اتار لیا

چور چپل لے کر فرار
ایسا بھی ہوتا ہے گلگت بلتستان میں میں نے آج سنا
پاکستان کے دیگر صوبوں میں جب ہم جاتے ہیں تو دھوکہ ،چوری،امانت میں خیانت ،جیسے کئی معاشرتی برائیاں زیادہ ہیں جب بھی ہم شہروں کی طرف رخ کرتے قدرے احتیاط سے چلتے کہ کہیں کسی کے دھوکے میں نہ آئیں۔
چند سالوں سے گلگت بلتستان میں بھی برائیوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ گھر بناتے تھے مگر کوئی چاردیواری گیٹ نہیں ہوتا تھا لوگ بے خوف خطر سوجاتے تھے اپنے گھروں میں بیٹھتے تھے ۔کوئی چیز چوری نہیں ہوتی تھی ۔اب ہر گھر بڑا گیٹ تالا اور اونچی عمارتیں دیواریں اور چوریاں بھی ہونے لگی ہیں۔
کچھ وقت پہلے ہم کھیت میں اپنی چیزیں جیسے بیلچہ وغیرہ چھوڑ کر آتے مجال ہے کوئی لے کر جائے مگر اب تو حالات بدل گئے ہیں۔
بہت سارے مسائل جنم لے رہے جن کا ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔
ایک قصہ میرے کزن نے سنا دیا پہلے تو سن کر ہسی بھی آئی مگر یہ بھی سوال پیدا ہوا کہ انسان جب مشکل پریشانی میں ہے تو اس وقت ایک اور مشکل بھی اجاتی ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے کزن کے والد کی طبعیت خراب تھی کزن بیچارہ چھوٹا ابھی میٹرک پاس کیا تھا کہ گھر کی زمہ داری اس پر آگئی ۔باپ بیچارہ بیمار ہسپتال میں تھا اور وہ اپنے باپ کے ساتھ ہسپتال میں تین دن سے سویا نہیں تھا جسم اسکا تھکن سے چور تھا انکھیں دھندلی ہوتی تو باپ ایمرجنسی میں نیم بے حوش پڑا تھا شائید اس خوف سے بھی وہ نہیں سو پارہا تھا کہ کہیں کسی چیز کی ضرورت باپ کو پڑھ جائے کرسی پر بیٹھا تھا۔
پہلے میں اسکے والد کی بیماری کے حوالے سے بتانا چاہوں گی اسکے والد کو گردوں کا توڑا مسلہ تھا اور کوئی خاص نوکری بھی نہیں زمینداری سے گھر چل رہا تھا۔کہ بخار ہونے پر قریبی ہسپتال گئے جس پر ڈاکٹروں نے غلط انجکشن اور دوائی دی اور گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
بیٹا بڑا میرا کزن صرف اٹھارہ سال کا ہوگا اپنے باپ کے ساتھ گلگت گلگت کے سرکاری ہسپتال میں تھا ۔تین دن کی تھکن ہسپتال کے چکر اور باپ کی خدمت میں دن رات کھڑا کبھی کوئی رشتہ دار اتا کبھی کوئی جاتا انکی مہمان نوازی الگ چائے پلانا ،انکے ساتھ باہر تک جانا اسر واپس انا الگ۔

کبھی کوئی اسکا کزن اسکے پاس اتا کبھی دوسرا ہسپتال کی پریشانیاں اور بیماری اللہ دشمن کو بھی نہ دے مگر جب اور جس بندے کے اوپر اتی وہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
تیسرے روز کرسی پر بیٹھا تھکا ہارا تھا کہ شام کی مریض کے ساتھ ڈیوٹی کیلیے ایک کزن آتا ہے پھر وہ کہتا ہے کہ اج اپ ابو کے پاس رک لینا میں گاڑی میں سو جاتا ہوں۔کزن کہتا ہے کہ پہلی بار دو دن سویا نہیں تھا جسم بلکل تھکن سے چور تھا جیسے ہی میں گاڑی میں لیٹا مجھے ہوش ہی نہیں رہا اور میں سو گیا۔پاوں میرے لمبے تھے گاڑی کے شیشے سے باہر تھے میں نے چپل کس کے باندھ لیے تھے اور انہیں اتارنا ہی بھول گیا تھکن کی وجہ سے سو گیا۔

ہسپتال کے گیٹ کے باہر گاڑی میں سے جب اٹھا تو میرے پاوں سے جوتے نہیں تھے کہ شائید گر گئے ہونگے اوٹھ کر دیکھا جوتے نہیں تھے۔
شائید چپل اتنے مہنگے نہیں تھے مگر میں حیران ہوگئی کہ ہمارے گلگت میں بھی یہ چھوٹی برائیاں جنم لے رہی ایک بندہ ہسپتال میں گاڑی کے اندر سورہا اسکا جوتا اتار کر لے جانا ۔شائید تھکن کی وجہ سے بچہ سویا نہیں تھا انکھ نہیں کھلی۔
مگر ہمارے ریوں میں تبدیلی دیکھ کر حیران ہوں کہ کسطرح لوگ اس قسم کے غلط کام کرتے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اور کیا کچھ ہورہا ہوگا ہمارے علاقے میں جس کی ہمیں خبر نہیں اور ہم بھی شہروں کی طرح دن بدن ان معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
کہانی سنانے کا میرا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمیں ہر جگہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا علاقہ جو اس طرح کی برائیوں سے پاک تھا اب نہیں رہا۔

شیرین کریم

شیرین کریم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ ایک فری لانس صحافی ہیں جو مختلف لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ رپورٹنگ کرتی ہیں ۔ شیرین کریم فیچر سٹوریز ، بلاگ اور کالم بھی لکھتی ہیں وہ ایک وی لاگر بھی ہیں اور مختلف موضوعات خاص کر خواتین کے مسائل ,جنڈر بیسڈ وائلنس سمیت عوامی مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر اکثر لکھتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button