گلگت ( کرن قاسم ) فسٹولا کے عالمی دن کے حوالے سے جمعرات کے روز سنٹرل پریس کلب گلگت میں ڈاکٹر شفقت آرا نے اپنے دیگر ڈاکٹروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فسٹولا کی بیماری امیر لوگوں کو نہیں بلکہ یہ بیماری غریب و مجبور اور انپڑھ لوگوں پر حملہ آور ہوتی ہے اس کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ امیر لوگوں کی بڑے بڑے اور اچھے ہسپتالوں تک رسائی ہوتی ہے اور دوسری بات امیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جنہیں اچھی کنٹینٹل کیپ دی جاتی ہے اور غریبوں کو یہ سہولیات میسر نہیں ہونے کی وجہ سے مزکورہ بیماری ہو جاتی ہے انھوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی میزربل کنڈیشن ہے جس میں عورت یا لڑکی کا دوران لیبر دورانیہ بڑا اور لمبا ہو جاتا ہے تو بچے کا سر ماں کی پیرویس کے اندر پھنس جاتا ہے جس سے مثانہ اور پاخانہ راستہ بچے کا سر بلوس کی ہڈی درمیان بہت دیر تک رہنے کی وجہ سے وہاں پر ایک سوراخ بن جاتا جس کے باعث عورت یا لڑکی ساری زندگی اپنے پیشاب و پاخانے پہ قابو نہیں پا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے رشتہ دار و گھر والے اپنے سے دور رکھتے ہیں جبکہ اسی بیماری کی وجہ سے بہت سی خواتین ایسی ہیں جو طلاق ہو چکی ہیں انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 20 ملین عورتیں اس بیماری میں مبتلا ہیں لیکن ابھی تک ان کا علاج کے لئے رسائی ممکن نہیں ہوئی جبکہ ایک فگر کے مطابق 57 سے 60 ہزار کے درمیان عورتوں کا علاج ہو چکا ہے انھوں نے کہا کہ یہ علاج ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے انھوں نے کہا کہ اگر کسی کو ابسٹیٹک سسٹم ہو گیا ہے تو اس کا علاج بھی ممکن ہے اس کے بارے میں لوگ آگاہی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے عورتوں کو اس بیماری کی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے لوگوں کو اس کا علاج کہاں ہوتا یہ بھی نہیں پتہ ہوتا انھوں نے کہا کہ پی این ایف ڈبلیو ایچ یو این ایف بی کی مدد سے بہت بڑا ہسپتال کراچی میں ہے جہاں پر سالانہ 5 سے 6 ہزار سالانہ سرجریز ہوتی ہے اور آس فاؤنڈیشن کے وساطت سے پورے ملک میں تقریبا 8 سینٹرز قائم ہیں جہاں پر یہ علاج فری ہوتا ہے جبکہ اس بیماری کے افراد کو کرایہ تک دیا جاتا ہے انھوں نے کہا کہ 12 یا 13 سال کی لڑکیاں شادی کرتی ہیں تو وہ خود ایک بچے ہوتیں ہیں ایک بچے کو اس عمر میں پیٹ میں سنبھالنا ان کے لئے کتنا مشکل مرحلہ ہوگا انھوں نے کہا کہ آج ہم 23 مئی فسٹولا انٹرنیشنل ڈے اس لئے منا رہے ہیں کہ تاکہ اس بیماری حوالے سے لوگوں کو آگاہی ہو اور سسٹینول ڈیولپمنٹ رولز کے حساب سے
2030 تک اس پر مکمل طور قابو پایا جانے کا امکان ھے۔