خصوصی خبر

نجی کمپنی کے بس کو حادثہ کیسے پیش آیا ؟؟؟

انسانی جانوں کا ذمہ دار کون؟؟؟

گلگت ( کرن قاسم ) شاہراہِ قراقرم پر حالیہ بس حادثہ ڈرائیور کی غفلت یا بس میں فنی خرابی کے باعث پیش آیا اس پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے جمعہ کے روز چلاس یشوکھل کے مقام مارکوپولو کمپنی کی مسافر بس روالپنڈی سے گلگت طرف آتے ہوئے گہری کھائی میں جا گری جس کے نتیجے 21 قیمتی جانیں چلی گئیں جبکہ اس حادثے کے 20 مسافر مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ان میں سے ایک زخمی گزشتہ روز میڈیا کو حادثہ متعلق بتا رہا تھا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اس نے چلتی بس کے پچھلے ٹائر جانب سے ایک خوفناک آواز سنائی دی جس کے بعد ڈرائیور نے اللہ کا نام بلند آواز میں لیا اور ان ہی لمحوں میں بس روڈ سے باہر نکل کر کھائی میں گری اس سے قبل ڈرائیور نے بس کے پچھلے حصے سے آنے والی آواز سنتے ہی بس کو حادثے سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کی اور سامنے ایک موڑ بھی تھا اس اثنا میں بس حادثے کا شکار ہوئی جبکہ ایک اور زخمی نے گزشتہ روز وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی ہسپتال میں زخموں کی عیادت دوران نے حادثے کی وجہ کو پہلے والے زخمی مسافر سے ہٹ کر بیان کیا کہ جس جگہ بس چل رہی تھی وہاں روڈ تھوڑا سا کچا تھا اور بس کی سپیڈ بھی زیادہ تھی جب بس روڈ چھوڑ کر حادثے کی طرف جانے لگی تو تب ہمیں اندازہ ہوا کہ کوئی مسئلہ ضرور پیدا ہوا ہے جس سے بس کا بیلنس برابر نہیں لگ رہا بس ان مختصر سوچوں کے لمحات بس مسافروں سمیت گہری کھائی میں گر پڑی جس سے یہ حادثہ پیش آیا
یہ خوش آئند اقدام ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے زخمی مسافر کے حادثے متعلق تاثرات سنتے ہی موقع پر مارکوپولو بس حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا اور اس واقعے کی از سر نو تحقیقات کر کے فوری طور صوبائی حکومت کو پیش کیا جائے جس پر باقاعدہ ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے یہاں پر بات صرف تحقیقات کی نہیں ہے صوبائی حکومت کو شاہراہِ قراقرم پر سروس فراہم کرنے والی تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو پابند رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس روٹ پر مسافروں کو سروس فراہم کرنے اپنی بسوں کا ماڈل کم از کم 5 سال سے پرانا نہ رکھیں تاکہ اس طرح کے فنی خرابیوں باعث آئے روز شاہراہِ قراقرم پر حادثات رونما نہ ہو سکے دوسری طرف ان کمپنیوں کے ڈرائیوروں پر بھی چھان بین کیا جائے کہ ڈرائیور کہیں نشہ کر کے گاڑی چلانے کا عادی تو نہیں اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ڈرائیور پنڈی سے لیکر گلگت بلتستان تک روڈ کے مختلف موڑز سے واقفیت رکھتا ہے کہ نہیں اس سے قبل بھی ایک کمپنی کی بس جو گاہکوچ سے راولپنڈی جاتے ہوئے چلاس کے مقام پر حادثے کا شکار ہو کر بڑی تعداد مسافروں کی جانیں ضائع ہوئیں اس پر بھی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا لیکن وہ رپورٹ تا حال منظر عام پر نہیں آئی حکومت کی طرف سے حادثات کے بعد تحقیقات کا حکم مسئلے کا حل نہیں صوبائی حکومت کو چاہئے کہ ممبران اسمبلی میں سے کسی تجربہ کار ممبر کو ٹرانسپورٹ کا وزیر بنایا جائے تاکہ وہ ان ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے اندر موجود خامیوں کو دور کرنے میں کردار ادا کر سکے اور ویکل قانون کے اندر رہ کر گلگت بلتستان میں ٹرانسپورٹ کمپنیاں اپنی گاڑیوں کے زریعے سروس فراہم کرنے پابند ہو سکے اس شعبے کی ایک الک وزارت صوبائی سطح پر نہایت ضروری ہے صرف ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی وزارت کے ذریعے ان تمام معاملات پر نظر رکھنا ممکن نہیں پنڈی روڈ پر چلنے والی تمام بسوں کے اندر سکرین پر مسافروں کو ویڈیو فلمیں دکھائی جا رہی ہے اس دوران گاڑی چلاتے چلاتے ڈرائیور کی نظریں بھی درمیان ایک لمحہ کے لئے سکرین جانب ہوتی رہتی ہے یقیناً ایسی صورتحال میں حادثات تو ہونگیں پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے جبکہ بعض ایسی کمپنیاں گلگت بلتستان میں ٹرانسپورٹ سروس فراہم کر رہی ہے جن کی بسیں ملک کے دیگر شہروں میں چل چل کر ناقابل استعمال نیلام ہوچکی تھیں جنہیں باہر سے رنگ روغن کر کے گلگت بلتستان لایا گیا ہے اور مسافروں کو ان بسوں کی باہر سے خوبصورتی دیکھ کر غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں جبکہ ان بسوں کی حالت اندر سے بلکل ختم ہو چکی ہوتی ہے ایسی کمپنوں کی کھٹارہ بسوں کی سروس سے حادثات تو ہونا ہے جن پر قابو پانے کے لئے صوبائی حکومت کو ایک الگ تھلگ ٹرانسپورٹ وزیر بنانے کر زمہ داریاں سونپ دینے کی ضرورت ہے۔

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button