خواتین

کیا فلک نور ذہنی تناو کا شکار ہے؟

تیرہ سالہ کم عمر فلک نور کا عدالت میں کیسا رویہ تھا؟

فلک نور کیس کے حوالے سے مسلسل کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے والے صحافیوں میں بھی ہوں، کیونکہ خاتون ہونے کی حیثیت سے اس مسلے کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا اور اس اہم مسلے کے انجام تک فلک نور کیس کے حوالے سے تفصیلات اور خبریں عوام تک پہنچاتی رہوں گی۔
میں آج صرف فلک نور کے حوالے سے بتانا چاہتی ہوں تاکہ ہمارے معاشرے کے تمام لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ اس معاملے میں فلک نور کتنی ڈسٹرب ہے اور اسکی ذہنی صحت کے حوالے سے بھی متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔کاونسلنگ اور رہنمائی کی ضرورت اس وقت اس بہت زیادہ ہے کیونکہ کم عمری کے ساتھ اسنے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا ہے جس کے حوالے سے اسنے کھل کر میڈیا کے سامنے بھی اظہار کیا۔ قانون اور اسلام میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے قوانین نافذ کئے ہیں جس پر عمل درامد بھی وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اس اسکے ساتھ ایسے واقعات میں بچیوں کی کاونسلنگ بھی بہت ضروری ہے۔دارامان نہ ہونے کی وجہ سے کم عمر بچی کو پولیس سٹیشن میں پولیس خواتین کے ساتھ زیر حراست بچی کو رکھا گیا ہے جس کے اسکے دماغ پر منفی اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں ۔
سب سے اہم بات جو مجھے لگا کی فلک نور اس وقت ذہنی دباو کا بھی شکار ہے ۔
جب فلک نور کو کورٹ میں لایا گیا تو اسنے اپنے باپ کے سامنے بیان دیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے.یہ لمحہ اسکے باپ کیلیے ایک امتحان سے کم نہیں تھا کہ اسکی اپنی بیٹی اسکے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی بے بس باپ سے چاہیے وہ جیسا بھی ہو اسکی بیٹی کو وہ گلے کا نہیں لگا سکتا تھا بے بسی کے عالم میں باپ خالی ہاتھ جج کے آفس سے بھی خالی ہاتھ لوٹتا ہے فلک نور اپنے باپ سے بھی نہیں ملی صرف بیان ریکارڈ کروایا اتنی زیادہ ٹینشن میں تھی کہ اسے عدالت میں پیش کیا وہاں کورٹ روم میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔فلک نور کو پولیس خواتین عدالت میں پیش کرنے کیلیے لاتی ہیں کورٹ میں پیش کرتی ہیں اسے قبل اسکا بیان ریکارڈ ہو عدالت کی کاروائی شروع ہو اسے کرسی پر بھٹایا گیا اور میرے ساتھ ہی اکر بیٹھ گئی، میں نے اسکی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا فلک نور کیسی ہو ؟ اسنے جواب دیا میں ٹھیک ہوں ۔اسی دوران پولیس خاتون نے اسے بتایا کہ یہ صحافی ہے ۔
جیسے ہی کرسی پر بیٹھی ہر طرف دیکھنے لگی لوگوں کا رش بہت تھا چاروں طرف دیکھ رہی تھی کبھی پیچھے مڑ کر اور کبھی ساتھ بیٹھے ہر شخص کو دیکھ رہی تھی ۔اسکے ہاتھ کانپ رہے کبھی انکھوں سے آنسو پونچھ رہی تھی کبھی لمبی سانس لے رہی تھی اور کبھی کہہ رہی تھی اف اتنے سارے لوگ ان سب کے سامنے میں نے بیان ریکارڈ کرنا ہے۔کبھی جک کر جج کی بات سن رہی تھی کبھی کرسی پر ٹیک لگا رہی تھی مسلسل یہ تیرہ سالہ لڑکی فلک نور عجیب حرکتیں کررہی تھی ۔کبھی تسبیح پڑھ بڑھ رہی تھی اور کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہی تھی یہ حالت دیکھ کر مجھے دکھ بھی ہورہا تھا کہ اللہ کسی کی بیٹی پر یہ دن نہ لائے، ایک چھوٹی بچی جس کی حرکتیں بچوں کی ہیں کہ وہ اپنی پسند کی خاطر گھر سے نکلی جس کو یہ تک علم نہیں کہ شادی کے بعد اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اب تک لاعلم تھی۔فلک نور کبھی دوپٹے سے دھاگہ نکال کر اسے کھا رہی تھی اور دوپٹے کے دھاگے دانت سے نکال رہی تھی ۔جس پر میں نے اسے کہا کہ فلک اپ ٹیشن نہ لو سب ٹھیک ہوگا ریلیکس ہوجاو ۔مگر وہ بہت پریشان تھی کبھی سر پکڑ رہی تھی اپنا سر دبارہی تھی کبھی بڑ بڑارہی تھی کہ مجھے دو دن فرید سے الگ رکھا ۔جب میں نے پوچھا کہ کس کے ساتھ جانا ہے اپ نے تو بولی فرید کے ساتھ ۔اپ کی عمر کتنی ہے پوچھا تو بولی سولہ سال ۔
میں نے کہا کہ کیا اپ اپنے والد سے ملی ہو؟ تو بولی میں ملنا ہی نہیں چاہتی ،نہیں ملتی لیکن ابو کے سامنے میں نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے کہ میں انکے ساتھ جانا نہیں چاہتی۔
عدالتی کاروائی کے اختتام پر جب جج کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بچی کا میڈیکل کرایا جائے تو بولی کروا دے میرا میڈیکل انکا ہی منہ کالا ہوگا۔
بارہ سالہ فلک نور کی حرکتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر سکون نہیں بلکہ پریشان اور ذہنی دباو اس پر زیادہ ہے جس کیلیے اسے کسی کام ایکٹیویٹی میں مصروف رکھنا بہت ضروری ہے۔
جب کورٹ کی کاروائی ختم ہوئی تو میں نے کہا کہ اپ پر یہ کپڑے بہت سوٹ کرتے ہیں تو فلک نور نے جواب دیا یہ کپڑے میرے نہیں پولیس باجی کے ہیں ۔
جس پر میں نے چائلڈ پروٹیکشن افیسر کو بھی بتایا کہ اسکے لیے کپڑے اور ضروری اشیا مہیا کریں تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم کپڑے بھی دیں گے اور جو کچھ چاہیے بتا دیں ۔
میں نے کہا کہ اسے مصروف رکھنے کیلیے کوئی کتابیں بھی دیں تاکہ یہ پڑھے گی جس پر فلک نور خوش ہوگئی اور بولی کہ مجھے کہانیوں کی کتابیں بہت پسند ہیں ہاں میں پڑھ لوں گی ۔تو چائلڈ پروٹیکشن افیسر بولی کہ ٹھیک ہے میں لے کر دیتی ہوں ۔
کبھی غصے میں اکر بات کرتی تھی کبھی نرم لہجے میں بار بار اسکی طبعیت بھی تبدیل ہورہی تھی اور ٹائم پوچھ رہی تھی کہ کب جانا ہے مجھے نماز پڑھنا ہے کب لے جارہے میڈیکل کیلیے،یہاں کیوں اتنا روک کر رکھا ہے۔ فلک نور نے جو بھی اقدام اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ پر مگر اسکی ذہنی صحت اور اسے پرسکون ماحول فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ ڈپریشن والے ماحول سے سکون سے اپنے بارے میں سوچنے کا موقع ملے۔

شیرین کریم

شیرین کریم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ ایک فری لانس صحافی ہیں جو مختلف لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ رپورٹنگ کرتی ہیں ۔ شیرین کریم فیچر سٹوریز ، بلاگ اور کالم بھی لکھتی ہیں وہ ایک وی لاگر بھی ہیں اور مختلف موضوعات خاص کر خواتین کے مسائل ,جنڈر بیسڈ وائلنس سمیت عوامی مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر اکثر لکھتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button