صحت
رجحان ساز

زچگی دوران ماں اور بچے کی اموات ذمہ دار کون؟

ماں اور بچے کی صحت

ماں اور بچے کی صحت و اموات کے زمہ دار کون ۔۔۔

تحریر:- کرن قاسم

گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنانے کے حوالے سے محکمہ صحت کی جانب سے بے انتہا کوشیش کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود زچکی کے دوران ماں اور بچے کی موت یا پھر دونوں میں سے ایک کی موت واقع ہونے سمیت قبل از وقت بچوں کی پیدائش اور بعد از وقت پیدائش سے اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے محکمہ صحت گلگت بلتستان و پروگرام سروس کی طرف سے اس پر قابو پانے کے لئے طرح طرح کے منصوبے تشکیل دیئے جا چکے ہیں اس مقصد کیلئے موبائل ٹیموں کی تعداد میں اضافہ اور مختلف ورکشاپس کے زریعے شعور آگاہی مہم سمیت دیگر طریقے کار ترتیب دینے و سہولیات پہنچانے کے باوجود بچوں کی وقت سے قبل پیدائش اور اموات میں اضافہ کی شرح ہر سال بڑھتی ہی جارہی ہے اس کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ محکمہ و صحت و پروگرام سروس کی جانب سے فراہم کردہ تجاویز پر عمل نہیں کیا جا رہا دوسری جانب ماں اور بچے کی صحت کا خیال صرف صحتی اداروں کی رحم و کرم پر چھوڑا جانے سے ماں بچے کی صحت برقرار نہیں رہ سکتی اس پر ماں کو بھی جاری ہدایات کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے جب متعلقہ ادارہ صحت کے زمہ داران سے وجوہات معلوم کی گئی تو انہوں نے 2019 سے 2023 کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ماں بچے کی صحت کو تحفظ دینے اور آگاہی فراہم کرنے کی غرض سے گلگت بلتستان میں اب تک 1430 مرتبہ لیڈی ہیلتھ کمیٹی کے اجلاسوں کا انعقاد بھی کیا جا چکا ہے جبکہ 1551 مرتبہ خواتین کے گروپ میٹنگز اور مختلف اضلاع کے 261 سکولوں میں ہیلتھ ایجوکیشن سیشنز بھی کروائے گئے ہیں اسی طرح گلگت بلتستان کے 10 اضلاع میں
باقاعدہ 85 ہیلتھ سینٹرز اور 1852 لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں انہوں نے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں رکھا کہ پروگرام ہیلتھ انڈیکٹر سروے کے مطابق گلگت بلتستان کے اندر ہر 1 لاکھ بچوں کی پیدائش کے بعد 157 اموات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ گلگت بلتستان کے دسویں اضلاع میں مجموعی طور 37.5 فیصد دودھ پینے والے بچوں اور 91.8 فیصد پانچ سال سے کم عمر والے بچوں کی موت واقع ہوتی جا رہی ہے سرکاری سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں 16 لاکھ 41 ہزار 66 کی آبادی موجود ہے جس میں 84 فیصد آبادی یعنی 13 لاکھ 59 ہزار 934 آبادی کو لیڈی ہیلتھ ورکرز کور کر رہی ہوتی ہیں پروگرام سروس فیملی پلاننگ کے مطابق 1 لاکھ 56 ہزار 565 جوڑے جن خواتین کی عمر 15 سے 45 سال کے درمیان ہے منصوبہ بندی کے بغیر ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 73 ہزار 85 کی تعداد منصوبہ بندی سے گزرنے ابھی نئے شامل ہو چکے ہیں اسی طرح فیملی پلاننگ پر عمل کرنے والے کیسز کی تعداد 1 لاکھ 486 جبکہ جدید مانع حمل طریقہ استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی مذکورہ بالا ایک لاکھ چار سو چھیاسی ہے اسی طرح کنڈوم استعمال کرنے والوں کی تعداد 19 ہزار 775 ہے جبکہ ٹیبلیٹ استعمال سے منصوبہ بندی کرنے والوں کی تعداد 1 لاکھ 22 ہزار 26 ہے جبکہ انجیکشن کے زریعے منصوبہ بندی کرنے والوں کی تعداد 15 ہزار 626 ہے اور دیگر طریقہ منصوبہ بندی کرنے والوں کی تعداد 21 ہزار 897 بتائی گئی ہے ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سال 2021 میں ٹوٹل 8 ہزار 334 بچوں کی ڈیلوری ہوئی جن میں سے 169 کی ڈیلیوری وقت سے پہلے یعنی 7 ماہ کے دوران ہوئی جبکہ اس دوران 1108 اموات کے کیسز سامنے آگئے پیدائش کے ایک ہفتے 72 اموات اور ایک ہفتہ تا 12 ماہ کے درمیان بچوں کی اموات 68 جبکہ ایک سال سے 5 سال کے درمیان بچوں کی اموات 42 ریکارڈ کی گئی اسی طرح دوران زچگی اموات کے 8 کیسز سامنے آگئے
اس صورتحال کو جب ہم دیکھتے ہیں تو گلگت بلتستان میں ماں اور بچے کی صحت خرابی یہ بتا رہی ہے کہ یہاں گلگت بلتستان میں صحت کا محکمہ و فیملی پلاننگ کی طرف سے جاری ہدایات پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حملہ خواتین کی ڈیلیوری کیسز وقت سے قبل بچے کی پیدائش ہونے ، دوران زچگی اموات اور بعد از ڈیلیوری بچے کی موت یا دوران زچگی ماں بچہ دونوں کی اموات رونما ہوتے ہیں جس کے لئے محکمہ صحت پروگرام سروس و فیملی پلاننگ کی ہدایات کی روشنی میں گھر کے اندر دوران حمل طاقتور خوراک اور ڈاکٹر سے وقتاً فوقتاً اپنا و پیٹ میں موجود اپنے بچے کا معائنہ ناگزیر ہو چکا ہے ورنہ خطے کے اندر موجودہ صورتحال جاری رہی تو ہر سال بچوں اور ماؤں کی شرح فیصد اموات میں بجائے کمی اضافہ ہوتی جائے گی ۔

گلگت بلتستان میں حملہ خواتین و بچے کی صحت اور اموات کی بڑھتی ہوئی صورتحال حال کے حوالے سے وزیر نسواں گلگت بلتستان دلشاد بانو سے موقف لیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت کی طرف سے تمام اضلاع میں حملہ خواتین کے لئے باقاعدہ خاندانی منصوبہ بندی کے بڑی تعداد مراکز قائم کئے جا چکے ہیں اور ان ہیلتھ سینٹرز پر باقاعدہ ایک شیڈول کے مطابق لیڈی ہیلتھ ورکرز ماں اور بچے کی صحت کو تحفظ فراہم کرنے اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ بعض مذہبی اضلاع میں اس پروگرام کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی خواتین کو نہ صرف ہیلتھ مراکز سے استفادہ حاصل کرنے کی اجازت دی جا رہی اور نہ ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گھر گھر منصوبہ بندی و دیگر ماں بچے کی صحت حوالے سے مشاورت کے لئے خواتین سے ملنے دیا جا رہا جس کی وجہ سے ایسے اضلاع میں بچے وقت سے قبل پیدا ہوتے اور وہ 9 ماہ سے قبل ماں کے پیٹ سے غیر موزوں پیرٹ باہر آنے کی صورت کم دنوں میں ہی موت کے منہ چلے جاتے ہیں حملہ خواتین کی صحت مند رہنے سے بچے کی پیدائش بھی اپنے مقررہ وقت کے مطابق نو ماہ کے آس پاس ہو جاتی ہے جو ماں اور بچے کی صحت ہمیشہ سلامت رہتی جس کے لئے مردوں کو خواتین کے لئے پرانے زمانے کے روایات سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اپنی حملہ بیویوں اور پیٹ میں موجود بچوں کی بہتر صحت کے لئے دور جدید کے سہولیات سے گزرنا پڑے گا ورنہ ماں اور بچے کی صحت پر حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوشیش بے مقصد ثابت ہونگیں اور اموات میں اضافہ ہوتا جائے گا انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے باقاعدہ حملہ خواتین کے لئے ایک بہترین سہولت فراہم کردی گئی ہے کہ جو خواتین کسی مجبوری یا پھر مردوں کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر گھروں سے باہر نہیں پاتی ان مجبور حملہ خواتین کی دہلیز پر صحت کی سہولیات پہنچانے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ایک کثیر تعداد خطہ بھر میں کام کر رہی ہے لہذا اپنی حملہ خواتین کی زندگیوں سے کھیلے بغیر ان سے استفادہ حاصل کریں تاکہ ماں اور بچے کی صحت برقرار رہ سکے

معاون خصوصی برائے اطلاعات گلگت بلتستان ایمان شاہ نے اس حوالے سے بتایا کہ گلگت بلتستان میں ماں اور بچے کی صحت کو تحفظ دینے کے لئے صوبائی حکومت اپنے صحت کے پروگرامز میں مزید بہتری لا رہی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان ماضی کی حکومتوں میں متعدد بار صوبائی وزیر صحت رہ چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں انھوں نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں گلگت کے تین بڑے ہسپتالوں میں جب بھی میرا دورہ ہوتا وہاں اکثر نومولود مریض بچوں کی اور ان کی ماؤں کی سب سے بڑی تعداد دیکھائی دیتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنانے کے حوالے سے جو ہماری کوشیش اور ہر اضلاع میں حملہ خواتین کے لئے فراہم صحت کے مراکز کھولے گئے ہیں وہاں سے یہ حملہ خواتین مستفید نہیں ہو رہی ورنہ آج ان کو زچگی کے آپریشن کیسز اور وقت سے پہلے پیدائش و پیدائش کے بعد ہسپتالوں میں موت اور زندگی کے کشمکش مرحلے سے کی نوبت کبھی نہیں آتی۔

خطے میں دوران زچگی اموات کا تناسب بڑھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے صحافت سے وابستہ سینئر صحافی و تجزیہ کار جہانگیر ناجی نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں ماں اور بچے کی صحت پر کام کرنے والے صحت کے ادارے گزشتہ ایک عرصے سے یہاں ایک چھوٹے سے خطے میں زچکی کی شرح اموات کو نمایاں طور پر کم کرنے میں ناکام رہے ہیں انھوں نے بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بھرتیاں بھی قابلیت کی بنیادوں پر نہیں ہو رہی جو صحت کے شعبے سے پیشہ رکھتی ہوں کو لیڈی ہیلتھ ورکرز میں لینے کی ضرورت ہے بعض لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف ڈاک کا کردار ادا کرتے ہوئے منصوبہ بندی کے ٹیبلیٹ اور کنڈوم خواتین کے گھروں تک پہنچا کر چلی جاتی ہیں یہ عمل کافی نہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے اندر حملہ خواتین کو منصوبہ بندی جانب گامزن کرنے اور ماں بچے کی صحت متعلق پابند رکھنے پر آمادہ کیا جانے کی صلاحیت موجود ہونا چاہئے تاکہ ہر گھر کی حملہ خواتین اپنا اور اپنے بچے کی صحت کا خیال رکھنے کی قابل بن سکے #

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button