اہم ترینخواتین

گلگت شہر اور مضافات میں صحت کی سہولیات ناپید

حاملہ خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا کیوں ؟

تحریر شیرین کریم۔

“میرے گھر کی دو دو ذندگیوں کا سوال تھا ایمبولینس تو مل گئی لیکن لیبر روم تک کا سفر دشوارگزار اور بہت طویل تھا ”
” میری بیوی صبح ٹھیک ٹھاک ہسپتال پہنچنی تھی تاہم میری بیوی اور بیٹی کا جنازہ لے کر رات آٹھ بجے گھر پہنچا…”

یہ الفاظ تھے امتیاز گلاب بگورو کے جس کا تعلق گلگت بلتستان کے گاوں بگروٹ سے ہے, بگروٹ گلگت حلقہ نمبر تین کا مضافاتی گاوں ہے جہاں دو ہزار کے قریب گھرانے ہیں ۔
حلقہ نمبر تین دنیور،سلطان آباد ، جوتل،رحیم آباد،محمد آباد،اوشکھنداس،بگروٹ ،جلال اباد ،حراموش،چھموگڑ کی آبادی 50 ہزار کے قریب ہے
دس گاوں مگر گورنمٹ ہسپتال ایک جس میں نہ صحت کی سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی ایمرجنسی میں ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی لیبر روم میں ڈیلیوری ہوتی ہے تمام مریض گلگت سٹی ہسپتال جاتے ہیں یا پرونشل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا رخ کرتے ہیں ۔

اسی طرح نہ صرف حلقہ نمبر تین دنیور بلکہ گلگت بلتستان کے تمام دور دراز علاقوں میں صحت کی سہولیات نہیں اور کئی خواتین ہسپتال پہچنے سے پہلے دم توڈ گئی…

نمبردار شاہد حسین سناکر بگروٹ کے مطابق حلقہ نمبر تین میں خاص کر بگروٹ جلال آباد اور حراموش میں صحت کے سہولیات نہیں عوامی نمائندے ووٹ لینے کے بعد منظر عام سے غائب ہیں ہم ان کے پیچھے جاکر فریادیں کرتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل کریں مگر اس صدی میں ہم پتھر دور کی زندگی گزار رہے ہسپتال کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف امتیاز بلکہ کئی لوگوں کے گھر اجڑ گئے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا جس کی زمہ دار حکومت ہے ۔علاقے میں خاص کر حاملہ خواتین کیلیے بہت مسائل کا سامنا ہے گاوں کے گاوں لیڈی ہیلتھ ورکر کے علاوہ نہ ہسپتال کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی گائناکالوجسٹ محمد آباد 30 بیڈ ہسپتال میں ہوتی ہے اسلیے مجبوراً گلگت شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ایمرجنسی کے واقعات میں میلوں سفر کرکے پہچنے تک کئ خواتین بال بال بچ گئی اور کئی اللہ کو پیاری ہوگی ۔
امتیاز نے مزید بتایا کہ میری بیوی جو حاملہ تھی آخری مہینہ چل رہا تھا بیٹی کیلیے تمام تر شاپنک کرکے تیار کیا تھا جب بیوی کو صبح تھوڈی بہت تکلیف ہوئی تو ہم جلال آباد میں تھے بیوی کو جلدی سے گاڈی میں بھٹا کر اوشکھنداس پہنچا تھا کہ بیوی کو زیادہ تکلیف ہونے لگی سانس کا مسلہ پیش آنے لگا تو اوشکھنداس قریبی 30 بیڈ ہسپتال میں لے کر گیا اس نیت سے شاید سانس کا مسلہ بحال ہوجائے تو شائد طبعیت بہتر ہونے ہر گلگت لے کر جاوں گا مگر ہسپتال میں دو کمپوڈر موجود تھے جنہوں نے کوشش تو کیا مگر ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ایک ادھ گھنٹے بعد کہا کہ انہیں ڈی ایچ کیو لے کر جائیں ایمرجنسی کا مسلہ ہے ۔ جلدی سے ہسپتال کے ایمبولینس میں بیٹھا کر پی ایچ کیو ہسپتال لیبر روم لے کر گیے

امتیاز نے اہ بھرتے ہوئے مزید بتایا کہ ایک گھنٹے بعد وہاں پہنچے مگر وہاں بھی ڈاکٹر نہیں تھی اور ایمرجنسی جب شفٹ کیا وہاں بھی اتوار ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر چھٹی پر تھی اور دو گھنٹے بعد ڈاکٹر کو بلایا تب جا کر ڈیلیوری کرودی گئی لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی میری بیٹی کی نہیں بپچنے کی خبر ہمیں سنادیا اور میری بیوی یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکی اور کومے میں چلی گئی اور شام سات بجے وہ بھی جان کی بازی ہار گئی ۔
سارا دن ہسپتالوں کے چکراور دھکے کھا کھا کر اس امید سے کہ میری پہلی اولاد بیٹی پیدا ہورہی اور وہ خوشی بھی خوشی نہیں رہی تھی خالی ہاتھ دو جنازے اٹھا کر گھر پہنچ گیا اور میری زندگی کی خوشیاں ایک ہی دن میں ختم ہوگی۔

ڈاکٹر شیرین سلطان کے مطابق گلگت بلتستان میں بھی نظامِ صحت تین حصوں میں کام کرتا ہے، پہلا حصہ پرائمری یعنی بنیادی ہیلتھ کیئر ہے جس میں کمیونٹی کی سطح پر صحت کے مراکز قائم کیے جاتے ہیں جیسا کہ حاملہ خواتین کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام۔

دوسری یا سیکنڈری سطح پر ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح کے ہسپتال آتے ہیں۔ جبکہ تیسری سطح پر صحت کے نظام میں شہروں میں واقع بڑے ہسپتال آتے ہیں جہاں آپریشن اور زیادہ بیمار افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیرین سلطان کا مزید کہنا ہے کہ کمیونٹی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے شروع ہونے والا نظام گائناکالوجسٹ یا سپیشلسٹ پر ختم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے علاقے میں بنیادی مراکز صحت کا نظام اس سطح کا نہیں کہ وہ ہماری ماؤں یا حاملہ خواتین کے لیے مناسب ہو۔
حاملہ خواتین کے وارڈ میں رش اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ خواتین کی دوران زچگی پیچیدگیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔ ’ان پیچیدگیوں کی وجہ یہی ہے کہ خواتین حمل کے دوران لیڈی ہیلتھ ورکرز یا اپنے علاقے میں موجود کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہی نہیں ہیں یا ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتی ہیں، جب بچے کی پیدائش کا مرحلہ آتا ہے تو یہ عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

حاملہ خواتین کا فشارِخون بھی بلند ہو جائے تو انھیں ڈسٹرکٹ یا تحصیل ہسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے، ہمارے پاس بڑی بیماریوں یا پیچیدگیوں کے مریض آنے چاہییں مگر ہمیں معمولی مسائل کا بھی علاج کرنا پڑتا ہے

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ حمل کے دوران کم از کم چار مرتبہ لیڈی ہیلتھ ورکر یا ڈاکٹر کے پاس جائیں تاکہ دوران زچگی پیچیدگی نہ ہو۔

امتیاز نے مزید بتایا کہ مریض کو لے کر میلوں سفر طے کرنا الگ اور ہسپتالوں کے چکر کاٹنا ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کبھی ڈاکٹر نہیں تو ایمرجنسی میں کبھی ہسپتال کی مشینری خراب ہوتی کوئی ایک مشین ایک ہسپتال میں ہے دوسرے ٹسٹ کیلیے مریض کو ایمبولنس میں ڈال کر ہسپتالوں کا چکر لگانا پڑتا ہے جو کہ انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڈ ہورہا جس کی وجہ سے ہم نے اپنے پیاروں کو کھویا۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں ہیلتھ کے نظام کو بہتر بنانے کیلیے اہم اقدامات اٹھائیں گیے ہیں ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنے ساتھ پیرامیڈیکل سٹاف کی کمی کو دور کیا ہے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات میسر کیا ہے حلقہ نمبر تین اوشکھنداس میں ایل ایچ وی 2 ہیں جنرل نرس 4 ہیں۔

یہ کہانی صرف ایک اکیلے امتیاز کی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کی خواتین بہتر صحت کی بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کم اوبیش بہت سی خواتین ایسی مسائل کا شکار ہیں انہی میں سے ایک زکیہ بیگم بھی ہیں جن کی عمر پچیس سال ہے اور انکو حمل کا پانچواں مہینہ چل رہا ہے جس کا تعلق بگروٹ سے ہے

زکیہ بیگم کہتی ہیں کہ میرا پانچواں مہینہ چل رہا ہے میاں کی ڈیوٹی پنڈی میں ہے لیڈی ہیلتھ ورکر سےکیلشیم کی چند دوائیاں لیا تھا مگر ہسپتال جا کر چیک اپ نہیں کروایا کیونکہ گلگت کا ہسپتال بہت دور ہے اور گھر سے اس حالت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں جانا مشکل ہوتا ہے اسلیے نہیں گئی لیکن اکثر ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی پیچیدگی نہ ہو کیونکہ اس سے پہلے بھی ہمارے گاوں سے ڈیلیوری کے دوران کئی خواتین کی موت ہو گئی ہے ۔نزدیکی سنٹر نہیں نہ ہی وہاں صحت کی سہولت موجود ہے ۔

زکیہ کہتی ہیں کہ میں حکومت وقت سے صرف مطالبہ ہی کرسکتی ہوں کہ ہمارے مسائل حل کرے مگر امید نہیں صرف دعا کرتی ہوں کہ میری بیٹی پیدا ہوگی تو اسے ضرور ڈاکٹر بناوں گی جو ہمارے علاقے کے خواتین کی خدمت کرے گی خواتین کو میلوں سفر طے کرکے ہسپتال جانا نہ پڑے۔

امتیاز خود ایک صحافی بھی ہیں نے کہا کہ میں اپنے علاقے کے صحت کے مسائل کو اکثر اپنے قلم کے زریعے سے اجاگر کرتا کیونکہ میں نے ہسپتال کی سہولت نہ ہونے اور دور ہونے کی وجہ سے دو نہیں بلکہ تین جانوں کو کھویا ہے جن میں سے میری ماں بھی ہے مسائل کو اجاگر اسلیے کرتا ہوں کہ کوئی اور اپنے پیاروں کو نہ کھوئیں۔ امید ہے بہت جلد حکومت ہسپتال کی سہولت بہتر بنائے گی۔

شیرین کریم

شیرین کریم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ ایک فری لانس صحافی ہیں جو مختلف لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ رپورٹنگ کرتی ہیں ۔ شیرین کریم فیچر سٹوریز ، بلاگ اور کالم بھی لکھتی ہیں وہ ایک وی لاگر بھی ہیں اور مختلف موضوعات خاص کر خواتین کے مسائل ,جنڈر بیسڈ وائلنس سمیت عوامی مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر اکثر لکھتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button