کیا گلگت بلتستان میں بھی غیرت کے نام پہ قتل ہوتے ہیں ؟
تحریر (شیرین کریم) 5 سالوں میں 60 خواتین کا گلگت بلتستان میں قتل
گلگت سے تعلق رکھنے والی فرحانہ (فرضی نام) تیس سالہ خاتون جو کہ پانچ بچوں کی ماں ہیں کو اس کے شوہر نے جولائی کے گرم مہینے میں گرم پانی اپنی بیوی پر ڈال دیا اور لڑائی جھگڑے میں نوبت یہاں تک آئی کہ شوہر نے گرم پانی بیوی ہر ڈال دیا جس کی وجہ سے بیوی کا ادھا جسم جھلس گیا….
سوشل ورکر و ماں فاونڈیشن کی چیرپرسن یاسمین افضل کہتی ہیں کہ گلگت میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں جو کہ افسوس ناک ہیں اور ہم ایسے معملات میں کچھ نہیں کرسکتے ہیں انکے رشتہ دار صلح کرتے ہیں اور خاتون اپنے بچوں کی خاطر ایسے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے بھی واپس چلی جاتی ہیں یا والدین صلح صفائی کے بعد اپنی بیٹیوں کا گھر ٹوٹنے کے ڈر سے واپس بھیج دیتے ہیں ۔
جب ایسے واقعات میں خاتون واپس اپنے گھر چلی جاتی ہے والدین اسکے حق میں بہتر فیصلہ نہیں کرتے اور اسے لاوارثوں کی طرح واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔اور گھریلو تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔
ماہرین کا کیا کہنا ہے
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ریجنل کوارڈینیٹر گلگت بلتستان اسرار الدین اسرار کے مطابق گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں خواتین پر گھریلو تشدد عام ہے یہ کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ مردوں کے معاشرے میں خواتین پر ظلم ہمشہ سے ہوتا رہا ہے مرد یہ نہیں چاہتا کہ خواتین کو بھی برابری کے حقوق ملے اور خاتون کو دباو میں رکھنا اپنی غیرت سمجھتا ہے والدین اپنے بیٹیوں کو یہ نصیحت کریں کہ جس گھر میں بیاہ کر دیا جارہا وہاں سے واپسی بھی ہوسکتی ہے
شادی ہو کر گھر کے فرد کی حیثیت سے جاتی ہے جس کے بعد اس نے گھر کے تمام لوگوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے اور اگر کہیں غلطی کوتاہی ہوتی تو اور گھریلو ناچاقیوں کی بھینٹ عورت چڑ جاتی ہے کہیں گھریلو حالات سے تھک ہار کر خودکشی کرتی ہے اور کہیں ادیبہ کی طرح اپنوں کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں ۔
پولیس رپورٹ کے مطابق کیسز کی تعداد؟
کرائم ڈیپارٹمنٹ گلگت کے مطابق گلگت بلتستان میں صرف پانچ سالوں میں خواتین کے گھریلو تشدد کے واقعات صرف سترہ درج ہوئے ہیں جبکہ خواتین غیرت کے نام پہ قتل ہوئے ہیں جن میں سے 2019 میں 12 اور 2020 میں 9 اور 2021 میں11 اور 2022 میں 13 اور 2023 میں 15 خواتین غیرت کی بھینت چڑ گئی ۔
کیا خودکشیوں کے پیچھے بھی غیرت کے نام پہ قتل ہے؟
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ریجنل کوارڈینیٹر گلگت بلتستان اسرار الدین اسرار کا کہنا ہے کہ 2022 میں پولیس ریکارڈر کے مطابق ڈسڑکٹ غذر میں 20 خودکشیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے پولیس کے مطابق 5 کیسسز قتل کے ثابت ہوئے ہیں ۔ ہر خودکشی کے واقعے کی اگر تحقیق کی جائے تو ان میں سے 20 فیصد قتل کے واقعات ثابت ہوسکتے ہیں ۔ہر خودکشی کے پیچھے کئی وجوہات ہوتی ہیں اب تک ریسرچ ہوئی ہے اسکے مطابق جو وجوہات بیان ہوئی ہیں ان میں گھریلو تشدد،زبردستی شادی،کم عمری کی شادی ،غربت ،منشیات کا استعمال ہے اور ان تمام کی وجہ سے زہنی صحت لوگوں کی متاثر ہوتی ہے اور زہنی صحت خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
غیرت کے نام پر زیادہ خواتین رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور پھر خاندانی دباو پر راضی نامہ لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہے جیسے کہ پولیس رپورٹ کے مطابق 2020 میں قتل کی کیسز 9 تھی جو 2023 میں 15 ہوگئی ۔
پولیس کے مطابق صرف 2023 ایک سال میں خودکشیوں کے 18 کیسز رپورٹ ہوئی اور کچھ علاقوں میں نہ گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتی اور قتل کے کیسز بھی رپورٹ نہیں ہوتی۔یہ وہ اعدادوشمار ہے جو صرف پولیس تھانوں میں رپورٹ ہوچکی ہیں۔
کیا گلگت بلتستان میں خودکشی پر مجبور کرنے والے حالات پائے جاتے تھے۔
سماجی کارکن نیک پروین کہتی ہیں کہ سب سے اہم زمہ داری والدین کی ہوتی ہےکہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کریں گلگت بلتستان میں والدین اپنے بچوں میں فرق کرتے ایک دوسرے سے مقابلہ موازنہ طعنے اور تربیت کی کمی اور بچوں پر زیادہ امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔
جس کی وجہ سے بچے اپنی زندگی کا چراغ گل کردیتے ہیں .
دوسری سب سے اہم بات پسند کی شادی ہے والدین اپنے بچوں کی پسند کی شادی کروانا اپنا انا سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اپنے والدین سے ہر بات شئر نہیں کرتے اور خودکشیوں کی اہم وجوہات میں پسند کی شادی بھی ہے، والدین کا رویہ بھی درست نہیں ہوتا اور اکثر والدین اپنے بچوں کو ہی اپنے ہاتھوں ماردیتے انہیں نظرانداز کرکے ان کی بات نہیں سن کے انکی خواہشات اور ضروریات بھی پوری نہیں کرتے ۔
اگر شادی ہوکر کسی اور گھر جائے اور وہاں کے حالات بھی تنگ ہوں گھریلو تشدد اور ناچاقیاں خواتین کو مجبور کردیتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کرتے ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار ایک خاتون کیوں اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کرتی ہے ؟
جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں چاہے وہ خودکشی ہو یا قتل کہیں ماری جاتی ہیں تو کہیں انکے اپنے ہی ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ جینا مشکل کردیتے گھریلو حالات سے تنگ اکر ہی خواتین اپنی زندگی ختم کرتے۔
خاتون ممبر اسمبلی گلگت بلتستان ثریا زمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خاتون نے خودکشی کیا ہے لیکن سب واقعات خودکشی کے بھی نہیں ہوتے بلکہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔خودکشی کی واقعات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں پسند کی شادی اور خواتین زیادہ پڑھی لکھی ہوتی انکے رشتے اور شادی کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ کے ساتھ ہوتی ہے اور سب سے اہم وجہ گھریلو تشدد ہے مردوں کے معاشرے میں کچھ جگہوں پر تشدد اور قتل کرنا عام بات ہے اگر ایسے واقعات میں سزائیں سخت ہو تو ان واقعات میں کمی اسکتی ہے۔
کیا پولیس حقیقی وجوہات جاننے کی سنجیدہ کوشش کرتی ہے؟
سماجی کارکن نیک ہروین مزید کہتی ہیں کی ایسے واقعات چاہیے وہ تشدد کے ہوں خودکشی کے ہوں یا پھر قتل کے کسی صورت وجوہات جاننے کی کوشش نہیں ہوتی گھر والے سمجھتے ہیں کہ جو چلی گئی اس پر تحقیق کرنے کی کیا ضرورت اپنے گھر کا معاملہ سمجھ کر پولیس کے ساتھ بھی رویہ صحیح نہیں ہوتا اور اکثر خودکشی کے واقعات کے پیچھے قتل ثابت ہوتا ہے اگر ان پر تحقیق کیا جائے تو نہ خاندان والے چاہتے ہیں نہ پولیس جس کی سے وجہ سے اصل حقائق خاتون کے ساتھ ہی دفن ہوتے ہیں نہ قاتلوں کو سزا ملتی ہے اور نہ خاتون کو انصاف ملتا ہے۔
قتل کو خودکشی سے چھپانے میں مدد مل سکتی ہے؟
اسرار الدین کا مزید کہنا ہے کہ کئی واقعات کو اسی طرح خودکشی کا سہارا لیا گیا جیسے کہ ہنزہ میں ادیبہ کیس کے ساتھ ہوا قتل کرنے کے بعد خودکشی کا رنگ دیا گیا۔ایسے کئی واقعات ہیں جن کو قتل کے بعد خودکشی کا رنگ دیا .
خواتین پر گھریلو تشدد کے صرف سترہ کیسز پانچ سالوں میں رپورٹ ہوئے۔ گھریلو تشدد کے واقعات یقیناً اس سے زیادہ ہیں مگر گلگت بلتستان کے قبائلی معاشرے میں انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ہر دوسرے گھر میں خواتین پر تشدد ہوتا مگر خواتین اس تشدد کو سہ لیتی ہیں
اس حوالے سے سروے کیا کہتی ہے
MICS سروے 2017 کے مطابق ملٹیپل انڈیکیٹر کلسٹر سروے 2016-17 رپورٹ
بچوں اور خواتین کی صورتحال کے حوالے سے سروے یونیسف ,آغاخان فاونڈیشن اور گورنمنٹ آف گلگت کے اشتراک سے سروے کیا گیا سروے رپورٹ کےمطابق 78% خواتین نے تشدد کے رویے کو قبول کیا ان کا کہنا تھا یہ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے جو کہ اچھا ہوتا ہے اور یہ ہماری روایات کا حصہ ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن اف گلگت بلتستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2023 میں تشدد کے 70 کے قریب کیسسز سامنے ائے۔
ویمن پولیس سٹیشن کا کردار کیسا ہے
ویمن پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او حسین بانو کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کلچر میں شروع سے پولیس سٹیشن جانا برا سمجھا جاتا ہے اور خواتین تشدد برداشت کرتی ہیں مگر رپورٹ نہیں کرتی اگر کوئی خاتون رپورٹ کرتی ہے تو خاتون کو ہی برا سمجھا جاتا ہے ایسا نہیں کہ جس خاتون کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو اگر وہ رپورٹ کرے تو خاتون بری ہوگئی .
تشدد کے واقعات کو رپورٹ کرے تو قتل کے واقعات میں کمی اسکتی ہے تشدد کو خواتین برداشت کرتی ہیں جس کی وجہ سے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ویمن پولیس سٹیشن نے کئی ایسی خواتین کو پناہ دیا ہے اپنے جیب سے خرچ کرکے بھی یہاں انے والی خواتین کی مدد کرتے ہیں یہ پولیس سٹیشن کم اور دارالمان زیادہ ہے کیونکہ خواتین کو پناہ دینے کیلیے گلگت میں دارالمان نہیں جس کی وجہ سے ہمیں ہی ان خواتین کے خرچے برداشت کرکے کرایہ بھی دے کر انہیں گھر بیھج دیا جاتا ہے۔
اگر خواتین اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو برداشت کرنے کے بجائے رپورٹ کرے تو گلگت بلتستان میں قتل کے کیسز میں کمی اسکتی ہے۔