صوبائی دارالحکومت گلگت شہر میں بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ
بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے عوام پریشان
۔
گلگت ( کرن قاسم ) گلگت بلتستان میں بجلی کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے لوگ 20 ، 22 گھنٹے بجلی سے محروم صدیوں پہلے کے زمانے کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں لالٹین اور موم بتیاں جلا کر گزارہ کرتے ماضی کی حکومتوں نے بڑے بڑے برقی منصوبے کا اعلان تو کیا لیکن اب تک ان منصوبوں پر عملدرآمد نہیں ہوا گلگت بلتستان کے ہیڈکوارٹر میں واقع ہنزل پاؤر پروجیکٹ جو ایک اہم منصوبہ تھا اگر اس پر ہر آنے والی حکومتیں سنجیدگی سے بروقت کام کا آغاز کرتی تو آج عوام کو اندھیرے میں رہنے کے یہ دن نہیں دیکھنے ہوتے اسی طرح گلگت بلتستان میں ایسے بہت سے پاؤر پلانٹس کے منصوبے التوا کا شکار ہیں جن پر ہر آنے والی حکومتوں کا صرف تختیاں بدل بدل کر کریڈٹ اپنے نام کرنے کے سوا کوئی پریکٹیکلی کارکردگی نظر نہیں آتی حکومت ہر سال اپریل سے اکتوبر تک سوئی ہوئی ہوتی ہے جب پن بجلی گھروں میں پانی کا مسلہ پیش آکر لؤڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو تب یہ حکومت جاگتی ہے کہ فلاں فلاں منصوبے پر کام ہو رہا ہے آئندہ چند سالوں سے بجلی عام ہوگی وغیرہ وغیرہ کرتے ہوئے ان کا پانچ سالہ پریڈ پورا ہو جاتا پھر نئی حکومت آتی اور پاؤر پروجیکٹ پر کام نہ ہونے کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالتے ہوئے وہ بھی اپنا پانچ سال گزار کر چلے جاتی ہیں پیچھے مصیبتیں عوام کو بھگتنی پڑتی ہے بجلی نہ ہونے کی وجہ تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعلیم بھی سخت متاثر ہو رہی ہے سرد ترین موسم میں بچے کلاسوں سے باہر نکل کر آسمان کی روشنی میں پڑھ نہیں سکتے اور کلاسوں کے اندر اندھیرا چھایا ہوتا ہے روم میں کتابیں کھول کر اندھیرے میں پڑھ نہیں سکتے اس طرح کی ایک صورتحال سے گزر جدید دور کے عوام پرانے دور میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ طویل لؤڈ شیڈنگ کی وجہ سے گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژن میں موجود بازاروں میں کاروباری کو بھی سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بچے بغیر استری یونیفارم سکول جاتے ہیںگلگت اور دنیور شہر میں طویل لؤڈ شیڈنگ سے تنگ آکر چند روز قبل خواتین بھی گھروں سے نکل کر احتجاج کرنے مجبور ہوئی اور محکمہ برقیات کے خلاف نعرہ بازی کرتی رہی ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی 22 گھنٹے لؤڈ شیڈنگ ہم پر ظلم ہے بجلی بندش کی وجہ سے نہ ہم واشنگ مشین پر کپڑے دھو سکتے نہ بچوں کے کپڑے پریس کر سکتے اور نہ ہی موٹر کے ذریعے پانی چھت کی ٹینکی چڑھا سکتے ہمیں اس طرح کے اذیتوں سے گزرنا پڑ رہا ہے اس سے قبل ہم نے اس طرح کی لؤڈ شیڈنگ ہم نے نہیں دیکھی تھی فیول کے پیسے حکومت بچا کر پاؤر جنریٹروں کو بند رکھا گیا ہے اگر پن بجلی گھروں سے بجلی دینے پانی کا مسلہ ہے تو جنریٹروں سے بجلی دیا جائے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
جبکہ اس حوالے سے صوبائی حکومت اور محکمہ برقیات کے زمہ داروں سے ہم نے وجوہات دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ سردیوں میں پانی کی قلت کے باعث گلگت نلتر 14, 16 و 18 میگاواٹ اور کارگاہ پاؤر ہاؤس سمیت دیگر پاؤر ہاؤسز جو پانی سے چلتے ہیں کا تمام دارومدار پانی کے مقدار اوپر ہے جس کی وجہ سے پن بجلی سے چلنے والے پاور پلانٹس سے سردیوں میں پیداوار انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں کے ان چند مہینے روزانہ کے بنیادوں پر کچھ دورانیہ لوڈ شیڈنگ محکمہ کی مجبوری بنتی جبکہ بعض اوقات بجلی کے ترسیلی نظام کی خامیوں کے باعث بھی لوڈ شیڈونگ کے دورانیے میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ گلگت شہر میں 18 سے 20 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں 20 سے 22 گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے۔