افراد باہم معذور مسیحا کے منتظر
سپیشل پرسنز معاشرے کا پسہ ہوا طبقہ کیوں؟
- تحریر شیرین
ادھار مانگنے پر چند لوگوں نے اکر اعجاز کریم کو مارا پیٹا اور سارے فریم توڈ دئیے یہ کہنا ہے سیکم بانو کا کیونکہ اعجاز کریم بول نہیں سکتا۔
اعجاز کریم کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ شناکی ایریا ناصر آباد سے ہے اللہ تعالی نے اعجاز کریم کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ہماری ملاقات اعجاز کریم سے ہوئی شکل صورت سے ایسا بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اعجاز کریم قوت سماعت سے محروم ہے اور بول بھی نہیں سکتا ۔بہت ہی عزت سے سر جکا کر سلام کیا تو لگا شاید سن نہیں سکتے اور بول بھی۔
سکم بانو ایک سوشل ورکر ہیں جو ناصر اباد میں افراد باہم معزوروں کیلیے کام کرتی ہیں انہوں نے معاشرے کی بہت زیادہ تلخیوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا کیونکہ انکے اپنے دو بچے ڈیفرنٹلی ایبل ہیں ۔
سکم بانو کہتی ہیں کہ میرے دونوں بچوں کو اللہ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے میں نے کبھی انہیں بوجھ نہیں سمجھا ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے انہیں گھروں میں قید کیا جاتا اور ان سے مختلف کام لیا جاتا اور انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور انہیں بوجھ سمجھ کر نہ انہیں کھانا دیا جاتا ہے اور نہ ان کی دیکھ بال کی جاتی ہے ۔
سکم بانو کہتی ہیں کہ میں نے جب اپنے بچوں کا درد محسوس کیا تو مجھے لگا کہ معاشرے کے ایسے طبقے جو پسے ہوئے ہیں ان کی مدد کرنی چاہیے اور میں نے دن رات محنت کیا اور افراد باہم معزوروں کیلیے ایک ادارہ تہمینہ ویلفیئر کا قیام عمل میں لایا۔
سکم بانو نے مزید بتایا کہ تہمینہ میری بیٹی کا نام ہے اور اللہ تعالی نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ بول صحیح سے نہیں سکتی مگر نہ صرف نیشنل اور انٹرنیشل لیول پر بھی سپورٹس میں حصہ لیتی ہیں میری بیٹی نے کئی میڈل حاصل کیا اور اولمپک میں بھی حصہ لیا گولڈ میڈل حاصل کیا۔
تہمینہ کہتی ہے کہ اگر میری ماں میرا ساتھ نہ دیتی اور مجھے اگے نہیں لاتی تو اج میں بھی دوسرے ڈیفرنٹلی ایبل پرسنز کی طرح گھر میں ہوتی لیکن میری ماں نے میرا ساتھ دیا میں نے نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر پاکستان اور گلگت بلتستان کی نمائندگی بھی کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا جس پر مجھے اپنی ماں پر فخر ہے اور مزید محنت کروں گی اور علاقے کا نام روشن کروں گی۔
اعجاز کریم جو بول نہیں سکتا اور سن نہیں سکتا اپنا روزگار کما رہا تھا اس کے بھائیوں نے ایک چھوٹی سی دکان بنا کر دیا جہاں پر وہ فریم بنانے کا کاروبار کرتا تھا لوگ کام ادھار پر کرواتے اور جب اس نے لوگوں سے ادھار کے پیسے مانگے تو انہوں نے اعجاز کریم جو معذور تھے انہیں مارا پیٹا اور فریم سارے توڈ دئیے جس کے بعد اب وہ بھی تہمینہ ویلفیر میں اکر مختلف ہنر سیکھتا ہے ۔ مگر لوگوں سے بہت بدزن ہے انہوں نے اسکا کاروبار بند کروایا اب وہ گھر پر ہے ۔
تہمینہ ویلفیر کی چیرپرسن سیکم بانو کہتی ہیں کہ نہ صرف اعجاز بلکہ کئی افراد باہم معذوروں کے ساتھ معاشرے کا یہی رویہ ہے جو کہ بہت افسوس ناک ہے اور کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صرف ہنزہ ناصر اباد میں ہی 90 کے قریب ڈیفرنٹیلی ایبل پرسنز ہیں ان میں سے 40 کے قریب افراد ان کے ویلفیر میں ٹریننگ حاصل کرتے ہیں جو اب سردیوں میں ٹھنڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں ہیں ۔
یہ معذور افراد کچھ سلائی کڑائی کشن بنانا اور کوکنگ کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور جو اب مختلف شہروں میں بھی چلے گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فنڈنگ کی کمی ہے جس کی جہ سے اب ان کی تعداد ٹرینگ سنٹر میں کم رکھی ہے کیونکہ گورنمنٹ یا این جی اوز کسی کی طرف سے بھی کوئی مدد نہیں ہوتی اور یہ گھروں میں ان کے ساتھ بہتر سلوک بھی نہیں ہوتا ۔
سیکم بانو نے یہ پیغام دیا کہ کہ یہ افراد معاشرے کا حصہ ہیں انہیں بھی زندگی گزازنے کا حق ہے اگر ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے تو اللہ تعالی نے انہیں بے پناہ صلاحتوں سے نوازا ہے یہ لوگ بھی معاشرے کے مفید شہری بن سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہر فرد انہیں عزت بھری نگاہ سے دیکھے اور ان کی مدد کریں۔