ماں و بچے کی صحت اور دوران زچگی اموات کی وجہ ۔۔
تحریر:- کرن قاسم
گلگت بلتستان کے بعض اضلاع ایسے ہیں جہاں خواتین کی صحت بلخصوص ماں بننے والی خواتین کی صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے جس کے پیش نظر اکثر زچکی کے دوران ماں بچے کی موت واقعہ ہو جاتی اور بعض اوقات دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے یہ سب صورتحال مردوں کی طرف سے خواتین کے مسائل پر توجہ نہیں دینا اور اولاد پر اولاد پیدا کرنے سے پیدا ہو رہی ہے گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی نسبت سب سے زیادہ ڈیلوری کے دوران اموات کے واقعات ضلع دیامر کے علاقے داریل تانگر اور کھنبری و اس کے دیگر دیہی علاقوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں ایک ماں بننے والی خاتون کو دوران حمل جدید طبی مدد اور دوائیوں کا استعمال سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہوتا ہے جس سے ماں اور بچے کی صحت محفوظ رہتی اور صحت مندانہ مرحلے میں ان کی ڈیلیوری بھی آسانی سے ہو جاتی ہے ان سب سہولیات سے خواتین کو مزکورہ اضلاع کے دیہاتی آبادیوں میں دور رکھا جاتا ہے یا پھر ان مراحل سے خواتین کو گزارنا اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ضلع دیامر میں ماں اور بچے کی موت واقع ہونے کی کیسز کی تعداد سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے اس اضلاع میں دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسی خواتین جن کی زچکی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوتی وہ خواتین اکثر دباؤ کا شکار ہوتی ہیں ان ہی نوعیت کے کیسز میں چلاس اور گلگت کے دو بڑے ہسپتالوں میں زیر علاج 60 فیصد خواتین کا تعلق ضلع دیامر سے ہے معلومات کے مطابق نو مولود بچوں کی اموات کی وجہ قبل از وقت پیدائش ہے جبکہ لیبر اور ڈیلوری کے دوران مشکلات گردن توڑ بخار ، نمونیا جیسے انفیکشن سمیت دوران حمل پیٹ میں موجود بچے تک طاقتور غزہ نہ پہنچنا ان اموات کا باعث بنتے ہیں
دیامر کے دیہی علاقوں میں خواتین کو صرف بیوی بنانے بچے پیدا کرنے کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے مردوں کو چار چار شادیاں کرنے کی فکر تو رہتی لیکن ان کی صحت کا انھیں زرا سا بھی احساس نہیں ہوتا حمل کے دوران خواتین کو 9 ماہ تک ڈاکٹروں سے مشاورت کے رجوع کرنا پڑ رہا ہوتا تاکہ ماں اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کی صحت محفوظ رہ سکے کیونکہ نسواں کو بیٹی بہو ماں ساس نانی تک ہر زمہ داری پوری کرنی پڑتی ہے ان کا بھی بنیادی حق بنتا ہے کہ وہ دور جدید کے صحتی سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکے ان علاقوں میں مردوں کے اندر خواتین سے کم عمری میں شادی کرنا اور دوران حمل ان کو صحتی سہولیات سے محروم رکھنا سمیت بچوں کے وقفے کو اسلام کے خلاف قرار دینے والی باتوں کی وجہ سے اکثر
خواتین بہت زیادہ تناؤ میں رہتی ہیں جس کا براہ راست اثر ان کی صحت پر پڑتا ہے پھر یہاں کی خواتین یہاں کا سخت ترین ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مسائل گھر والوں کے ساتھ شیئر کرنے سے بھی ڈر جاتی ہیں جس کی وجہ سے ایسی خواتین کو تناؤ لینے سے بانجھ پن ۔ڈپریشن و دیگر پریشانیوں اور دل سے متعلق بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس حوالے سے ہم نے ڈیلیوری کے دوران موت واقعہ ہونے والی ایک خاتون کے شوہر سے رابطہ کیا تو
شعبان (جن کا یہ اصل نام ہے) نے کہا کہ میں گلگت دنیور نالے میں واقع برتی نامی گاؤں کا رہاشی ہوں
یہاں تقریباً پندرہ گاؤں ہیں کسی بھی جگہ ایک بھی صحت کا ادارہ موجود نہیں نہ ہی کوئی موبائل ٹیموں کے زریعے یہاں کے رہائشیوں بلخصوص خواتین جو حملہ کے مہینوں سے گزرتی ہیں کو ڈاکٹری مشورے اور نہ دیگر صحتی سہولیات فراہم ہیں چیک اپ کے لئے میلوں دور پیدل سفر کرنا پڑ رہا ہوتا جس سے بیمار کی طبیعت مزید خراب ہو کر رہ جاتی یہاں صحت کے حوالے سے سب سے بڑا مسلہ شادی شدہ خواتین کو درپیش ہے جن کو ڈیلوری کے دوران بہت تکلیف دہ پیدل سفر کے بعد گلگت شہر پہنچایا جاتا ہے انھوں نے بتایا کہ
میری بیوی کو دو سال قبل مزکورہ گاؤں میں ڈیلیوری کا مسلہ سامنے آیا اور میں نے بیوی کو 20 میل سفر پیدل طے کراتے ہوئے گلگت ہسپتال پہنچا دیا جہاں ڈاکٹروں نے مجھے سخت لہجے میں بتایا کہ آپ نے اپنی بیوی کو دوران حمل سے لیکر ڈیلوری کے دنوں تک ایک بار بھی ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کرایا جس کی وجہ سے ماں کی حالت ٹھیک نہیں اور پیٹ میں موجود بچے زندہ نہیں جن کو آپریشن کے زریعے نکالا جائے گا پھر میں نے پیپر سائن کردئیے اور آپریشن کے زریعے بچے کو نکالا گیا لیکن ماں کی طبیعت کچھ دنوں بعد خراب ہونے لگی تو انھیں علاج کے لئے کمپلیکس اسلام آباد لیکر گئے جہاں کچھ دن ایڈمٹ رہنے کے بعد وہ بھی زندگی کی بازی ہار گئی اس طرح ڈیلوری کیس میں ماں اور بچہ دونوں کو یہ جہاں نصیب نہیں ہوئی۔
گلگت سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی و تجزیہ نگار جہانگیر ناجی نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں بعض لوگ اپنی بچوں کے رشتے دو سے پانچ سال کی عمر میں ہی طے کر لیتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی خاندان اس ضلع کے اندر موجود ہیں بھائی اپنی ہمشیرہ کو رخصتی کے بعد پیغام بھیجتا ہے کہ اگر آپ کی بیٹی پیدا ہو گئی تو وہ بیٹی میرے فلاں بیٹے کے نام ہوگی جس کا رشتہ بعد میں آپ کسی اور سے ہرگز طے نہیں کرنا ہے اس طرح کے عجیب وغریب رسومات ماضی قدیم سے اس اضلاع میں پائے جاتے ہیں جب لڑکی پیدا ہو کر بارہ تیرہ سال کی ہو جاتی ہے تو پھر پہلے سے طے شدہ وعدوں پر مجبوراً اترنا پڑتا ہے اس طرح کم عمری میں شادی ہو جاتی پھر جب وہ چودہ پندرہ سال کی عمر ماں بننے کی پوزیشن میں داخل ہو جاتی ہے تو اس صورت نارمل ڈیلیوری کم عمری کی وجہ سے ممکن نہیں رہتی پھر آپریشن کے لئے بڑے ہسپتالوں کا رخ کیا جاتا جس کی وجہ سے کم عمری میں شادی خواتین کے لئے نہ صرف صحت خرابی کی باعث بنتی بلکہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے مختلف ہسپتالوں میں ایسے کیسز کا مجھے علم ہوا کہ کہیں بچہ جنم دیتے دیتے ڈیلیوری کے دوران ماں اور کہیں بچے کی جان جاتی ہے اور کہیں ڈیلیوری کے دوران ماں بچہ دونوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوتے ہیں یہ سب بڑوں کے غلط فیصلے اور رشتوں میں نا مناسب وقت کا چناؤ کی وجہ سے ہو رہا ہے جوکہ بلکل ہی غلط سلسلہ ہے اس رواج کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچیوں کی شادیاں اٹھارہ سال عمر میں ہو جائے تو ان کی نہ صرف صحت محفوظ رہے گی بلکہ زندگیوں کو بھی تحفظ ملے گا۔
صوبائی وزیر گلگت بلتستان دلشاد بانو نے کہا کہ خطے میں ماں اور بچے کی صحت خرابی اور ڈیلوری دوران اموات کی کیسز میں اضافے کی اصل بنیادی وجہ خواتین کی کم عمری میں شادیاں کرنا ہے کیونکہ کم عمر لڑکی شادی کے بعد بھی بچوں جیسی طبیعت میں اور کھیل کود یعنی بچکانہ ماحول میں سے گزرتی ہے وہ حمل ٹھہرنے کے علامات اور حملہ دورانیہ احتیاطی تدابیر حوالے سے لاعلم ہوتی ہے ایسے میں ایک کم عمر لڑکی کا شادی کے بعد ماں بننا نہ صرف مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے بلکہ ان کے پیٹ میں موجود بچے کی جان یا انکی اپنی صحت صرف ناتجربہ کاری باعث خطرے کی سبب بنتی ہے انھوں نے کہا کہ چند ماہ قبل ضلع دیامر کی تحصیل داریل میں ایک نو سالہ بچے نے تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کیا تو میں نے باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے اس رسم کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لانے آواز اٹھائی تھی لیکن مزکورہ اضلاع کے لوگوں نے اس عمل کو اسلامی طریقہ عمل قرار دیا گیا اس طرح کچھ دن بعد ایک اور کم عمر تیرہ سالہ لڑکی کی شادی بھی اسی تحصیل میں ہونے کی ویڈیو وائرل ہوئی۔۔ انھوں نے کہا کہ جب تک اس سلسلے پر قابو نہیں پایا جاتا تب تک وہاں کی شادی شدہ خواتین اور بچوں کی صحت پر قابو پانا ممکن نہیں ۔
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات گلگت بلتستان ایمان شاہ نے کہا کہ ملک بھر میں میرج ایکٹ کا قانون کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں پر ماں اور بچے کی صحت تندرست رہتی جبکہ گلگت بلتستان کی خواتین بلخصوص ضلع دیامر کی خواتین اپنے بڑوں کے فیصلے کے مطابق کم عمری میں شادی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ زچگی عمل سے گزرتے وقت ان کی صحت پر برا اثر پڑتا اور نوبت ڈیلیوری کے دوران آپریشن کی آجاتی یا پھر ماں بچے میں سے ایک یا دونوں کی زندگیاں خطرے کی سٹیج پہنچ گئی ہوتی صوبائی حکومت گلگت بلتستان مزکورہ اضلاع کی خواتین اور انکے بچے ایسے صورتحال سے نکالنے شعور آگاہی مہم کا آغاز کرنے ایک حکمت عملی پر کام کر رہی ہے جس کے آغاز سے ضلع دیامر کے اندر ماں اور بچے کی صحت متاثر ہونے سے بچ جائے گی ۔