خواتین
رجحان ساز

کم عمری کی شادی

گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی روکنے کا قانون

گلگت بلتستان میں کم عمر بچوں کی شادیاں روکنے کا قانون کب نافذ ہو گا،؟؟؟۔۔

رپورٹ: – کرن قاسم (جرنلسٹ)

گلگت بلتستان بلخصوص ضلع دیامر کے مختلف دیہی علاقوں میں بعض والدین اپنے بچوں کی شادیاں کم عمری میں کرنا فخر سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کم عمر بچوں کا ذہن تعلیم سے ہٹ کر ازدواجی زندگی کی طرف مائل ہو کر رہ جاتا ھے جس کی وجہ سے یہ بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے محنت مزدوری کے زریعے اپنے گھریلو زمہ داریاں سنبھالنے کے پیچھے لگ جاتے ہیں یوں ان کا مستقبل تعلیم جیسی روشنی سے محروم ہو کر رہ جاتی ہے یہ صورتحال یہاں گلگت بلتستان میں چائیلڈ میرج ایکٹ کا قیام عمل میں نہ لانے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے ایک ایسا ہی کیسز دو ماہ قبل گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی تحصیل داریل میں رونما ہوئی جو شاید دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا کم عمر دلہا تھا جو ازدواجی زندگی سے منسلک ہوتے دیکھا گیا جبکہ جنوری 2024 کے تیسرے ہفتے اسی تحصیل کے گاؤں منیکال داریل میں ایک اور 13 سالہ لڑکی کی شادی سولہ سالہ فضل احمد (فرضی نام ہے) سے کرائی گئی ضلع دیامر میں کم عمر بچوں کی شادیوں کا سلسلہ روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والا دنیا کا سب سے کم عمر دلہا رحمت خان (جن کا فرضی نام ہے) سے جب ربطہ کیا گیا تو انھوں نے کم عمری میں اپنی شادی کے وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق ضلع دیامر کی تحصیل داریل سے ہے 9 سال کی عمر میں شادی کرنا میری مجبوری تھی کیونکہ میرے گھر میں کام کاج کے لئے کوئی نہیں تھے جس کی وجہ سے میرے والد محترم نے میری شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور دسمبر 2023 میں باقاعدہ دھوم دھام سے میری شادی ہوئی خاندان کے افراد سمیت گاؤں کی اک کثیر تعداد نے میری شادی رسومات میں حصہ لیا اور شادی کی تقریب ایک ہفتے تک جاری رہی بارات نکلی اور دلہن کے گھر تک ایک جشن کا سماں تھا شادی سے پہلے میں اپنے آپ کو بچوں میں شمار کرتا تھا اب دلہا کے رسومات ادا کرنے کے بعد میرے اندر بڑوں کے اثرات پیدا ہو چکے ہیں کوشش کرونگا کہ میں اپنی تعلیم کو جاری رکھوں اور ساتھ ساتھ مزید بھی خواہشات جنم لے رہے ہیں کیونکہ میری بیوی کی عمر 13 سال ہے جب میں 20 سال کا ہو جاؤں گا تو اپنے سے چھوٹی عمر لڑکی سے دوسری شادی کروں گا جب میری عمر بیس سال ہوگی میری بیوی 24 سال کی ہو جائے گی تب تک اللہ نے چاہا تو میری پہلی اولاد کی عمر بھی دس سال ہوگی اور وہ بھی شادی کے عمر میں داخل ہو جائے گی اسی طرح تیس سال کی عمر میں تیسری شادی کر کے اولاد میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں اللہ نے ہمت دی تو 40 سال کی عمر میں چوتھی بھی شادی کروں گا 9 سالہ شادی شدہ بچے نے کہا کہ کم عمری میں شادی ہونے پر میری شادی کی وڈیو بین الاقوامی سطح وائرل ہوئی جس سے مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے داریل میں کم عمری میں شادی کرنا اور ایک سے زائد بیویاں رکھنا نہ صرف عام ہے بلکہ ایک رواج بن چکا ہے یہاں ایک سے زائد بیویوں کو رکھنے پر لوگ اس شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور گنجائش والے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں اور بیک وقت چار چار بیویاں رکھنے اور 25 سے 30 کے درمیان بچے پیدا کرنے کا رواج یہ ضلع دیامر میں کوئی نیا نہیں بلکہ یہ سلسلہ قدیم زمانے سے ہوتا ہوا آرہا ہے جس کے پاس مالی گنجائش موجود ہو وہ عموماً ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن میرے گھر میں گھریلو معاملات سنبھالنے کے لئے تھوڑے بہت مشکلات درپیش تھے اس لئے خاندان والوں نے میری شادی کروا دی ہے اور دلہن کو باقاعدہ رخصت کر کے گھر لے آیا ہوں اور میں اپنے بزرگوں کے اس فیصلے پر بلکل مطمئن ہوں انھوں نے جو میری شادی کا فیصلہ کیا تھا وہ سوچ سمجھ کر کیا ہے لیکن کم عمری میں شادی گھریلو مجبوریوں کی بنیاد پر کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ورنہ بچوں کی شادیاں پندرہ سال کے بعد عمر میں کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اپنی درمیانہ سٹیج تعلیم کو مکمل کر سکے

کم عمری میں شادی کے حوالے سے ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والی معروف سماجی شخصیت سابق صوبائی ترجمان فیض اللّٰہ فراق نے کہا کہ دیامر ضلع کے اندر کم عمری میں شادیاں کرنے کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے ، اور یہاں گھریلو کام کاج سنبھالنے کیلئے والدین اپنے بچوں کو شادی کی عمر تک پہنچنے کے منتظر رہتے ہیں جوں ہی وہ تھوڑے سے بڑے ہو کر گھریلو معاملات سے واقف ہونے لگتے اور حوش سنبھالنے کے سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں تو شادی کر کے بہو کی صورت خواتین کو زمینوں و گھریلو کام کاج کی غرض سے گھر لانے کا فیصلہ کرتے ہیں ،اس کے علاؤہ ایک مخصوص سماج جس میں روایتی پابندیاں ہیں اور انہی پابندیوں کی خوف سے عورت مظلوم ترین شے بن کر سامنے آتی ہے ،
ان روایات کے تناظر میں دوسری بڑی وجہ والدین کا ایک خوف ہے جو غیرت کے نام پر قتل سے منسلک ہے ، کیونکہ لڑکی ہو یا لڑکا جب جب بالغی کی طرف آجاتے تو ان کے ناجائز تعلقات کے نام پر فوری طور پر قتل کیا جاتا ہے اسلئے والدین کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سن بلوغت پر پہنچتے ہی ان کی فوری شادی کر دی جاتی ہے تاکہ بچہ یا بچی کہیں ناجائز تعلقات کی آڑ میں قتل نہ کئے جائیں اور دشمنی کا سلسلہ پیدا ہو نہ ہو سکے انھوں نے کہا کہ ایک طرف اگر ہم کم عمری کی شادی کو غیرت کے نام پر قتل سے منسوب کر کے اسے روک تھام کیلئے درست قرار دیتے ہیں تو بھی والدین کا درست فیصلہ لگتا ہے دوسری جانب اگر ہم کم عمری میں بچوں کی شادیاں ملکی چائیلڈ ایکٹ کے خلاف ورزی سے منسوب کر کے اسے جرم قرار دیتے ہیں تو بھی درست تصور کیا جاتا اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے غیرت کے نام قتل کے واقعات سے بھی علاقے کو محفوظ رکھنا ہے اور کم عمری میں شادیوں سے روکنے کے لئے بھی کوئی مثبت حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا ہے جس کے لئے یہاں گلگت بلتستان اسمبلی سے چائیلڈ میرج ایکٹ کا بل پاس کر کے قانون نافذ کرنا ضروری ہے۔ پاپولیشن کونسل نے یو این ایف اے اور گورنمنٹ آف کینڈا کے تعاون سے گلگت بلتستان میں 2016/17 کم عمری کی شادی کے حوالے سے سروے کیا جس میں ضلع دیامر کم عمری کی شادی میں سر فہرست رہا ۔ سروے کے مطابق ضلع دیامر میں 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی( 47.2٪ ) ضلع شگر میں (39.5%,,) ضلع گانچھے ( 27.7 ,٪،،) ضلع کھرمنگ میں 26٪ سکردو 32٪ ضلع نگر میں 30 ٪ ضلع گلگت میں 28 ٪ ضلع غذر میں 23 ٪ ضلع استور میں 10 ٪ ضلع ہنزہ میں 3 ٪ سروے کے مطابق گلگت بلتستان کے ان اضلاع میں پندرہ سے اٹھارہ سال کے درمیان بچیوں کی شادی کروائی جا رہی ہے ۔
نیشنل کمیشن آن سٹیٹس فار ویمن نے گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کے روک تھام کا بل کا ڈرافٹ پیش کیا ہے اور گلگت بلتستان میں علمائے کرام سے مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جائے گی ۔
کم عمری میں شادی کے حوالے سے سے سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ کم عمری کی شادیوں کے ذریعے کم عمر لڑکیوں کو استحصال سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے ہم اپنی نوجوان خواتین اور بچوں کی صحت اور مستقبل کی حفاظت کے لئے گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی سے متعلق قانون لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کروں گا کم عمر بچوں کو مستقبل میں طبی، ذہنی اور معاشی مصائب سے بچانے اور ان کو صحت مند اور محفوظ زندگی گزارنے کے حوالے سے حکمت عملی پر کام کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری بنتی ہے گلگت بلتستان میں جی بی چائلڈ پروٹیکشن ریسپانس ایکٹ 2017 کے مطابق بچے سے مراد وہ لڑکا یا لڑکی ہے جس کی عمر 18 سال سے کم ہے چائلڈ میرج ریسٹرین بل 2015 کے مطابق 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی ممنوع ہے اور اس کی سزا 2 سے 3 سال جیل میں رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔صرف گلگت بلتستان ہی نہیں ملک بھر میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں۔ ہمارا ملک کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے

انسانی حقوق گلگت بلتستان کے نمائندے اسرار الدین اسرارِ نے کہا کہ ضلع دیامر کے علاقے داریل میں 2 ماہ کے اندر کم عمر بچوں کی شادیوں کی 3 کیسز رپورٹ ہوئے اس میں 2 لڑکیوں کی عمریں 13, 13 سال جبکہ ایک لڑکے کی عمر 9 سال ہے شادی کر دی گئی ہے انھوں نے بتایا کہ جو لوگ کم عمری کی شادیاں کرتے ہیں انہیں گھریلو تشدد اور دیگر اقسام کی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے قوانین نے کم عمری کی شادیاں اور بچوں کے جنسی استحصال پر پابندی عائد کردی ہے جو لڑکیاں جلد میرج کرتی ہیں وہ بہت سی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ مانع حمل طریقوں کے بارے میں غیر آگاہی کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں جنسی بیماریاں اور دیگر شدید انفیکشن بھی ہوتے ہیں جبکہ زبردستی اور کم عمری کی شادی بنیادی انسانی حقوق کا غلط استعمال ہے۔ دنیا بھر میں ہر روز خواتین اور لڑکیاں اپنی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جب کسی لڑکی کو شادی پر مجبور کیا جاتا ہے تو اب وہ جنسی اور جذباتی استحصال کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کا بچپن ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے ان میں فرٹیلیٹی کا وقت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بنتا ہے جس سے کم عمری میں لڑکی کی صحت متاثر ہوتی ہے۔کم عمری کی شادی سے لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور ان کے آزادی کے حق کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے گلگت بلتستان میں چائیلڈ میرج ایکٹ کا قانون نافذ نہیں ہو گا تب تک کم عمر بچوں کی شادیوں کا یہ سلسلہ کم نہیں ہو گا ایسے والدین جو اپنے بچوں کی شادیاں کم عمری میں کر کے خوشی محسوس کرنے لگتے ہیں اصل میں یہ اپنے بچوں کی صحت کے قاتل ہیں ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس روایت کو ختم کیا جا سکے

صوبائی وزیر دلشاد بانو نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع بلخصوص ضلع دیامر میں بچوں کے ساتھ کم عمری میں شادی کر کے ظلم کیا جاتا ہے دیامر میں نو سالہ لڑکے نے جب تیرہ سال کی لڑکی سے شادی کی تھی تو میں نے باقاعدہ اس پر نوٹس لی لیکن یہاں چائیلڈ میرج کا قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑا انھوں نے کہا کہ عنقریب گلگت بلتستان میں ہم یہ قانون نافذ کرنے والے ہیں جس سے ایسے والدین جو اپنے بچوں کو کم عمری میں ازدواجی زندگی سے منسلک کرتے ہیں قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا اور سزائیں ملیں گی

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا کہ ملک بھر کی طرح کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے لئے گلگت بلتستان میں بھی قانون لایا جائے گا اس حوالے سے صوبائی حکومت گلگت بلتستان مذہبی و سیاسی جماعتوں، و قانون دانوں اور مختلف سماجی تنظیموں و انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ شادی کی کم از کم حد مقرر کرنے کی قانون سازی کے بعد گلگت بلتستان سے کم عمری میں شادیوں کا رواج ختم ہو جائے گا دیامر سمیت گلگت بلتستان کے بعض دیگر اضلاع میں بھی کم عمر بچوں کی شادیاں کی جاتی ہے لیکن دیامر کے لوگ شادی کے رسومات بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی شادیوں کا فوری پتہ لگ جاتا ہے کہ کم عمر لڑکی یا لڑکے نے شادی کی لیکن دیگر اضلاع میں اس طرح کے رسومات کو سادگی کا شکل دے کر چھپایا جاتا ہے چائیلڈ میرج کا قانون جب گلگت بلتستان میں حرکت دکھانے لگے گا تو سب بچوں کے والدین اپنے بچوں سے اس طرح کے زیادتیوں سے بعض آنے پر مجبور ہونگے ۔

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button