اہم ترین

گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات پر ٹریفک کے المناک حادثات

ذمہ دار کون؟؟؟

گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات پر ٹریفک حادثات کے زمہ دار کون۔۔۔؟

تحریر:- کرن قاسم (جرنلسٹ)

یہ غالباً میری ایک تجزیاتی رپورٹ سیاحتی مقامات پر ٹریفک و دیگر حادثوں متعلق 15 اپریل 2024 کے شمارے روزنامہ اوصاف میں فرنٹ پیج شائع ہوئی تھی جس میں ان مقامات پر مستقبل کے لئے حکومت کی عدم توجہ کی صورت باقاعدہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر صوبائی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کے سیاحتی بلخصوص بالائی تفریح مقامات پر ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے حوالے سے کوئی مثبت حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی تو جیسے مستقبل قریب میں نلتر ایکپریس بننے کے بعد حادثوں میں مزید اِضافہ ہونے کے خدشات ظاہر ہو رہے ہیں میں نے اس وقت اپنی رپورٹ میں یہ بھی واضح کی تھی کہ آئندہ ایک دو ماہ بعد 10 سے 12 لاکھ کے قریب تعداد میں مقامی ملکی و غیر ملکی سیاح گلگت بلتستان کے تفریحی مقامات کی طرف رُخ کر رہے ہیں اس سے قبل سرفرنگا ڈیزرٹ ، بابو سر، فیرامیڈو اور نلتر ویلی وغیرہ جیسے دیگر دشوار گزار راستوں پر واقع سیاحتی سیکٹرز کے داخلی پوائینٹس میں سیاحوں کو روک کر ان کی گاڑی فٹنس اور ڈرائیور کی صحت و تجربہ سمیت ان سے پوچھ گچھ کیا جائے کہ وہ اس روٹ سے واقف ہے یا پہلی بار اس روٹ پر ڈرائیونگ کر رہا ہے اگر ڈرائیور انجان ہے تو اسے ٹورسٹ انٹری پوائنٹ پر اسے عملہ آگے ڈرائیونگ اور احتیاطی تدابیر حوالے بریفنگ دیا جائے اگر گاڑی مطلوبہ سیاحتی مقام تک جانے کی کنڈیشن میں نہیں تو اس گاڑی کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے تاکہ سیاح حادثوں سے محفوظ سفر کر سکے میں نے آج سے ڈھائی ماہ قبل 15 اپریل کو ان حادثوں بابت اپنی تحریر میں صوبائی حکومت کو تجاویز کی شکل مستقبل میں پیش آنے والے علامات ظاہر اس لئے کی تھی کہ حکومت بروقت میری تجاویز پر عمل درآمد کر کے لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچانے میں کردار ادا کر سکے کیونکہ 11 اپریل 2024 کو عید الفطر کا دن تھا اور عید کے تیسرے دن نلتر کے مقام گلگت کنوداس سے تعلق رکھنے والی منٹی فیملی کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس میں ایک ہی فیملی کے 8 افراد زخمی اور ایک خاتون جانبحق ہوگئی اسی طرح عید کے تیسرے دن سرفرنگا ڈیزرٹ بلتستان میں کراچی سے تعلق رکھنے والی فیملی گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور خاتون جانبحق ہوگئی اور اس مرتبہ عید الاضحیٰ کے تیسرے روز 19جون کو نلتر کے مقام گلگت مجینی محلہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 5 افراد حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور کل اس حادثے کے ٹھیک دو گھنٹے بعد اسی نلتر کے مقام ایک اور ٹریفک حادثہ پیش آیا کار بریک فیل ہونے سے پہاڑ سے ٹکر کر الٹ گئی جس میں ایک بچہ زخمی ہو گیا جبکہ عید کے تیسرے روز 19 جون کو ہی بابو سر ٹاپ میں بھی لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک سیاح ٹریفک کے حادثے میں زندگی کھو بیٹھا صوبائی حکومت کو اب بھی وقت ہے کہ وہ سیاحتی مقامات پر سیزن میں ٹورسٹ گائیڈ و ویکل ایگزامنیشن پوائنٹس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ سیاح دوران سفر ان خطرناک راستوں پر احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں جہاں فور بائی فور گاڑی جانے کا راستہ ہے وہاں سیاح آلٹو اور وزٹس کار لے کر جاتے ہیں ان کمزور مشینری پر پہاڑی راستوں سفر سے حادثے تو لازمی ہونگے ابھی جولائی کے مہینے ملک سمیت دنیا بھر سے سیاحوں کا آمد باقی ہے ان مقامات پر ٹورسٹ ہیلپنگ پوائنٹ کے قیام سے کم ازکم لوگوں کو ان حادثات کے خدشات سے آگاہی حاصل تو ہوگی جس سے وہ روٹ صورتحال سے واقف اور حادثات سے محفوظ ہونگے جبکہ دوسری جانب ان سیاحتی مقامات پر سیاحوں کا رش کو مدنظر رکھتے ہوئے قریب ترین بلڈنگ میں سیزنل ہسپتال کا قیام عمل میں لانے یا پھر ان دو تین مہینوں کے لئے ہیلی ایمبولینس سروس میسر رکھنے کی اشد ضرورت ہے ہمیں کل کی صورتحال سے اندازہ ہوا کہ عید کے تیسرے روز 19 جون کو نلتر ایکسپریس وے پر پیش آنے والے اس دل خراش حادثے کے زخمیوں کو جن ملکی سیاحوں کی گاڑیوں کی مدد سے آغا خان ہیلتھ سنٹر تک لایا گیا اگر ان گاڑیوں کے اندر جھانک کر دیکھا جاتا تو میرے خیال میں ہر بندہ زخمیوں کے جسم سے بہہ کر جمع ہونے والے خون سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ زخمیوں کا خون اگر اتنا بہتا نہیں تو شاید ان کی زندگیاں بچ جاتیں شہر کے ہسپتال جیسی سہولیات وہاں سیاحتی مقام کے قریب میسر آجاتی تو زخمی اس طرح ہسپتال پہنچنے سے پہلے جسم سے خون خالی ہو کر راستے میں کبھی دم توڑ نہ جاتے عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ان بالائی سیاحتی مقامات کوئی حادثہ پیش آجاتا تو شہر سے ریسکیو ون ون ٹو ٹو کی گاڑیاں میلوں دور زخمیوں کو اٹھا لانے روانہ ہو جاتیں ہیں جیسے بابو سر ٹاپ پر کوئی ٹریفک حادثہ آجاتا تو چلاس سے زخمیوں کو ایمبولینس جاتی جب نلتر میں کوئی ٹریفک حادثہ پیش آجاتا تو گلگت شہر یا دنیور سے ایمبولینس ہسپتال اٹھا لانے جاتی ھے جوکہ یہ حکومت کا کوئی مثبت پلان یا انسانیت پسندانہ اقدام نہیں جو بھرپور انداز میں سراہنے کا قابل ہو۔۔ اس کو ہم افسوس کا

 

 

 

 

 

 

مقام اور لاپرواہی کا مظاہرہ ہی کہہ سکتے ہیں۔

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button