گلگت ( بیورو رپورٹ) عوامی ایکشن کمیٹی خطہ گلگت بلتستان کے اندر عوامی حقوق کا محافظ ہونے کے ناطے جی بی حکومت اور ایک نجی کمپنی گرین ٹورازم پرائیویٹ لمیٹڈ کے درمیان طے پانے والی معاہدے اور اس میں طے کردہ یکطرفہ شرائط کو گلگت بلتستان کے عوام کے اجتماعی مفادات سے یکسر متصادم قرار دیتی ھے اور اس معاہدہ کو جی بی عوام کے کھربوں ڈالر مالیت کے ذرائع پیداوار اور دولت پہ بہت بڑی ڈاکہ زنی سمجھتی ھے ان خیالات کا اظہار جمعہ کے روز چیئرمین عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان احسان علی ایڈووکیٹ غلام محمد، بابا جان ، غلام عباس، فدا علی ایثار، طارف عباس ایڈوکیٹ ، نصرت علی سمیت دیگر رہنماؤں نے گلگت پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ یہ خفیہ معاہدہ اگرچہ 23 اپریل 2024ء کو معرض وجود میں آیا ھے اور دو دن پہلے یہ خفیہ معاہدہ منظر عام پہ آیا ھے اس لئے آج ہم اس معاہدے اور اس میں طے کردہ شرمناک شرائط پہ اپنا موقف واضع کرنے کیلئے پریس کانفرنس کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ 35 شقوں اور درجنوں ذیلی شقوں پہ مشتمل ھے اس معاہدے کی توجہ طلب بات یہ ھے کہ جی بی کے عوام جو اس معاہدے میں شامل 37 جائیدادوں سمیت پورے جی بی کے اصل مالکان ہیں ان کے حقوق کا اس معاہدے میں کہیں ضمنا” بھی ذکر نہیں انہیں اس معاہدے سے ایسا ہی نکالا گیا ھے جیسے دُودھ سے مکھی کو نکالا جاتا ھےاس معاہدے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ھے کہ اتنے بڑے معاہدے کو کرنے سے پہلے جی بی میں قائم نان نہاد کالونیل اسمبلی سے منظوری لینے کی زحمت ہی نہیں کی گئی ھے اس سے ہمارا یہ موقف بالکل درست ثابت ھوتا ھے کہ یہ اسمبلی اور اسکی بنیاد پہ قائم جی بی حکومت یہاں کے عوام کے حقوق کی تحفظ کرنے میں مکمل طور پہ ناکام ثابت ھوا ھے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کی سب سے بنیادی کمزوری یہ ھے کہ اسے تیار کرنے سے پہلے اسکی شرائط اور تفصیلات عوام کے سامنے پبلک نہیں کیا گیا بلکہ انتہائی خفیہ طور پہ یہاں کے عوام چھپایا گیا اور معاہدے کے دونوں پارٹیز نے گلگت بلتستان میں ہزاروں سالوں سے آباد باشندوں کو اس طرح نظر انداز کیا جیسے جنگل کو آپس میں بندر بانٹ کرنے والی پارٹیاں جنگل میں چرنے والے جانداروں سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جی بی کے انسانی جنگل سے متعلق طے ھونے والی اس معاہدے کے خود ساختہ دعویٰ داروں نے بھی جی بی عوام کی حیثیت اور اہمیت کو بالکل ایسا ہی سمجھا ھے۔گویا اس بے آئین سرزمین پہ جیتے جاگتے انسانوں کو کوئی وجود ہی نہیں۔
اب ذرا اس معاہدے میں لکھے گئے فوائد کا بھی ذکر ھو جائے س معاہدے کے ابتدائیہ میں بتایا گیا ھے کہ اس کے نتیجے میں ٹورازم کی صنعت تیزی سے ترقی کرے گی ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھائی جا سکے گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جائیں گے اور اس طرح اس خطے میں ٹورازم کی اس ترقی سے گلگت بلتستان اور پاکستان کو مالی و اقتصادی طور پہ فایدہ ھو گا ان بلند بانگ کھوکھلے دعوؤں کے برعکس اصل حقیقت یہ ھے کہ پاکستان کی کسی حکومت نے بھی اس خطے میں ٹورازم کو ترقی دینے کی کوئی کوشش نہیں کی ھے بلکہ ٹورازم کی بڑھوتری کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالی ھے سال 1988ء میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی طرف سے سرکاری سرپرستی میں فرقہ واریت پھیلانے سے لیکر ابتک ہر آنے والی حکومت اور اسکے ماتحت انتظامیہ فرقہ واریت کے زہر کی انجکشن یہاں کی سماج میں انجیکٹ کرتے رہے۔
پاکستان اور جی بی کے درمیان واحد رابطہ سڑک کے کے ایچ پہ بار بار دھشت گردی کے واقعات کرایے گئے جس میں سینکڑوں بے گناہ افراد مارے گئے یہ واقعات برق رفتاری سے انٹرنیشنل میڈیا پہ آنے کی وجہ سے ٹورازم کی صنعت بری طرح متاثر ھوتی رہی پھر اس واحد رابطہ سڑک کے کے ایچ کی ناقص تعمیر اور بار بار بند ھونے کی وجہ سے بھی سیاحوں کی جی بی آمد بند ھوتی رہی نیز کے کے ایچ کے علاؤہ سکردو روڑ اور دیکر رابطہ سڑکیں بھی ناقص تعمیر کی وجہ سے سیاحوں کی تیز آمد میں بار بار رکاوٹیں آتی رہتی ہیں مگر کے کے ایچ اور دیگر رابطہ سڑکوں کو عالمی معیار کے مطابق محفوظ بنانے کے تمام تر دعوے جھوٹ ثابت ھوتے رہے انہوں نے کہا کہ ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کی دلچسپی کے سرحدی صحت افزا اور تاریخی مقامات جن میں استور کھرمنگ ،سیاچن،اشکومن، چپورسن اور داریل تانگیر کے سرحدی علاقوں تک جانے پہ نامعلوم وجوہ کی بنا پہ پابندی لگائی گئی ھے انہوں نے کہا کہ ستور تا سری نگر، کھرمنگ تا کرگل، اشکومن/ چپورسن تا تاجکستان تک قدیم تاریخی تجارتی و سیاحوں کے گزرنے کے راستوں کو پاکستان کے حکمرانوں نے نامعلوم وجوہ کی بنا پہ سیل کر دیا ھے حالانکہ اس سرحدی راستوں سے تجارتی سرگرمیوں کے بڑھنے کے علاؤہ بڑے پیمانے پہ سیاحوں کی آمد و رفت کے بڑے امکانات ہیں۔ نیز ان قدیم تجارتی راستوں کے کھولنے سے جی بی عوام کے ان ہمسایہ ریاستوں سے تجارتی و ثقافتی سرگرمیوں میں اضافہ ھونے سے یہاں کی ایک ابادی کو روزگار کے مواقع مہیا ھو سکتے ہیں مگر یہاں کے عوام کو ترقی کے ان بہتر مواقعوں محروم رکھا گیا ھے۔دوسری طرف فضائی راستوں میں پی ائی اے کی اجارہ داری قائم کی گئی ھے مگر پی آئی اے مقامی ابادی کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو محفوظ اور بلا رکاوٹ تیز ترین سروس دینے میں بری طرح ناکام ھو چکی ھے ناکارہ پرانے اور ڈیٹڈ طیارے بلانے کی وجہ سے فضائی سروس میں بار بار رکاوٹیں آتی رہتی ہیں نیز گلگت اور سکردو کیلئے کرایے بھی بہت زیادہ رکھے گئے ہیں جس کی وجہ فضائی راستے سے سیاحوں کی آمد و رفت معمول سے بہت کم رہ گئی ھے۔گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ سروس پہ بھی ایک ناکام کمپنی کی مکمل اجارہ داری حاصل ھے جو بار بار بند ھونے اور نیٹ کی رفتار نہ ھونے کے برابر ھے جس باعث مقامی صارفین کے علاؤہ سیاحوں کیلئے ایک مستقل عزاب بنا ھوا ھے اور بہت سارے کاروباری اور ریسرچ کیلئے آنے والے سیاحوں کے جی بی میں نہ آنے کی ایک بنیادی وجہ انٹر نیٹ سروس ان کے معیار اور ڈیمانڈ کے مطابق نہ ھونا ھے۔اس معاہدے پہ آئینی و قانونی اعتراضات پہلا اعتراض اس معاہدے پہ یہ ھے کہ جی بی جی بی اسمبلی اور جی بی حکومت کسی آئین کے تحت قائم نہیں ہیں بلکہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی طرف سے تیار کردہ ایک انتظامی حکم نامے کے تحت قائم کئے گئے ہیں دنیا بھر میں کہیں پہ بھی کسی بھی ریاست یا اسکے ماتحت انتظامی خطوں کا اندرونی نظام حکومت بغیر کسی آئینی تحفظ کے نہیں چلائے جا رہے ہیں گلگت بلتستان دنیا کا واحد بدقسمت خطہ ھے جسے پاکستانی ریاست بالکل اسی طرح بلا رہی ھے جیسے 1947 ء سے قبل انگریز سامراج ہندوستان کو بطور ایک کالونی کے چلا رہا تھا شروع شروع میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی غدار راجاؤں، مہاراجوں،نوابوں، جاگیرداروں کی غداری کی وجہ سے پورے ہندوستان پہ آسانی سے قبضہ کر لیا بعد ازاں برطانوی سامراج نے ہندوستان کو براہ راست اپنے قبضے میں لے لیا۔ مگر گلگت بلتستان میں اس کے بالکل الٹ ہو رہا ھے اس خطے کو آزاد کشمیر کے ساتھ پاکستان کی عارضی نگرانی میں دیا گیا تھا اقوام متحدہ کے ان قراردادوں کے مطابق پاکستان نے سیز فائر لائن پہ محدود تعداد میں فوج سرحدوں کی حفاظت کے خاطر رکھنے کی زمہ داری دی گئی تھی اور دونوں خطوں کو جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کے ماتحت رائے شماری ھونے تک بطور امانت پاکستان کے پاس رکھا گیا تھا مگر آہستہ آہستہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے تمام اندرونی مالی، انتظامی، سیاسی معاملات ریاست پاکستان نے زور زبردستی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اور جی بی کے تمام سیاہ و سفید کے مالک بن گیا مگر ان بین الاقوامی قراردادوں کی صریحا” خلاف ورزی پہ اقوام متحدہ نے کبھی بھی سنجیدگی سے ریاست پاکستان سے پوچھ گچھ نہیں کی جس سے ریاست پاکستان کے حوصلے مزید بڑھ گئے اور اب پورے گلگت بلتستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کی ایک نئی کمپنی کے رحم و کرم پہ چھوڑا جا رہا ھے جس نے تیزی سے گلگت بلتستان کے زرائع دولت کو ایک یکطرفہ معاہدے کے تحت اپنے کنٹرول میں لے لیا ھے۔جو کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ریاست پاکستان کو اس طرح امانت میں خیانت نہیں کرنے کا نہ حق حاصل ھے اور اختیار حاصل ھے۔
ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت قائم ایک بے اختیار ڈمی حکومت کو جی بی عوام کے مفادات کے منافی یہاں کے کھربوں ڈالر ملکیت کے اثاثہ جات اور تاریخی مقامات ر کو کسی پرائیویٹ کمپنی کے حوالہ کرنے کا کسی لحاظ سے بھی اختیار حاصل نہیں۔
ایک متنازعہ خطے کے بارے میں ایک ایسے یکطرفہ معاہدہ جو جہاں کے عوام کے اجتماعی مفادات کے بھی یکسر منافی ھو اور اس معاہدے کو یہاں کے عوام کی طرف سے ایک آئین کے تحت قائم بااختیار آئینی اسمبلی اور آئینی حکومت کی عدم موجودگی میں کسی طرح بھی اسے آئینی و قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا خود پاکستانی قوانین کے تحت بھی ایک درست اور قانونی معاہدہ دو برابر اسٹیٹس رکھنے والے فریقین کے درمیان ھوتا ھے جبکہ جی بی میں ایک اپاہج، بے بس اور بے اختیار ڈمی حکومت ھے جو قانونا” جی بی عوام کے وسائل دولت اور اثاثہ جات سے متعلق کوئی معاہدہ کسی طاقت ور کمپنی سے کرنے کا ہرگز مجاز نہیں اس یکطرفہ معاہدے میں مضحکہ خیز شق یہ ھے کہ دونوں فریقین میں معاہدے کے شو یا لین دین پہ اتفاق رائے نہ ھونے کی صورت میں تنازعے کو ایک دو رکنی طاقتور کمیٹی طے کرے گی جو جی بی کے چیف سیکریٹری اور جی ایچ کیو کی طرف سے نامزد نمائندہ ملکر طے کریں گے اور اس کمیٹی کا فیصلہ حتمی ھو گا۔اس کمیٹی میں جی بی کی نمائندگی کرنے والا نمائندہ بھی گلگت بلتستان سے نہیں بلکہ اسلام آباد کی آشیرباد سے نامزد فرد ھوتا ھے نیز اس معاہدے پہ دستخط کرنے والے تینوں افسران بھی اسلام آباد کی آشیر باد سے مقرر ھوتے ہیں اس لحاظ سے بھی یہ معاہدہ جی بی عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں
اس معاہدے کے تحت ان 37 ریسٹ ہاوسز،گیسٹ ہاؤسز اور فارسٹ پوائنٹس میں تعینات تمام مقامی ملازمین بےروزگاری ھو جائیں گے۔
یہ معاہدہ 30!سالوں کیلئے ھو گا اور اس میں مزید 10 سال کیلئے توسیع بھی فی جا سکے گی۔
یہ بالکل ایک ایسا معاہدہ ھے جیسے جنگل میں شیر اور ہرن کے درمیان کوئی معاہدہ ھوا ھو جس میں فیصلہ خیر کرتا ھے اور اگر کوئی ایک آدھ شق ہرن کے حق میں بھی ہو تو یہ حق ہرن تب کلیم کر سکتا ھے جب جنگل کا شیر اڈے دینے پہ راضی ان کا کہنا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی اور جی بی حکومت کے درمیان گندم سبسیڈی تحریک کے درمیان ایک معاہدہ ھوا ھے جس کے تحت دیگر معاملات کے علاؤہ حکومت نے یہ تسلیم کیا ھے جی بی میں عوامی اراصیات، جن میں چراگاہیں ،نالہ جات ، جنگل اور غیر آباد اراضیات شامل ہیں ان کے بارے میں حکومت موسمی قدیم رواج و دستور کے مطابق قانون سازی کرکے مقامی باشندوں کے حقوق کو تحفظ دے گی مگر موجودہ معاہدہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ طے کردہ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ھے اور عوامی ایکشن کمیٹی کی بی حکومت کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گی جی بی کے تمام چراگاہیں، نالہ جات،شکار گاہیں،پہاڑ اور جنگل مقامی باشندوں کی قدیم زمانوں سے شیر استعمال ہیں اور ان کے قبضہ و تصرف میں ہیں مگر موجودہ متنازعہ اور غیر قانونی یکطرفہ معاہدہ کرتے وقت جی بی کے ان دہشت ہاؤسز گیسٹ ہاؤسز نیشنل پارکس چراگاہیں ، فارسٹ گیسٹ ہاوسز اور یہاں موجود اراضیات سب کے سب صدیوں سے مقامی باشندوں کے زیر تصرف ہیں اس کے باوجود اس معاہدے میں مقامی باشندوں کو اس معاہدے کے تحت انکے حقوق سے یکسر محروم کیا گیا ھے جو کسی صورت یہاں کے عوام کو قابل قبول نہیں اور ان وجوہات کی بنا پہ عوامی ایکشن کمیٹی جی بی حکومت اور گرین ٹورز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے درمیان خفیہ طور پہ طے پانے والے اس معاہدے کو یکسر مسترد کرتی ھے اور حکومت گلگت بلتستان کو متنبہ کرتی ھے کہ وہ عوامی مفادات سے متصادم اس معاہدے کو فلفور ختم کر دے بصورت دیکر عوامی ایکشن کمیٹی پورے گلگت بلتستان میں حکومت کے اس عوام دشمن اقدام کے خلاف عوامی تحریک چلائے گی۔ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے عوام سے اپیل کرتی ھے کہ اپنے اپنے گاؤں ،یونین کونسل،تحصیل اور ڈسٹرکٹ سطح پہ عوامی کمیٹیاں منتخب کرکے مقامی سطح پہ منظم جدوجہد کی تیاری شروع کریں تاکہ ان مقامی تحریکوں کو ایک وسیع عوامی مزاحمتی تحریک میں تبدیل کیا جا سکے ۔