خصوصی خبر
رجحان ساز

فلک نور جس کے ساتھ جانا چاہتی ہے جائے ۔عدالت

میں اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں ۔فلک نور

گلگت ( کرن قاسم ) فلک نور کیس کے حوالے سے پیر کے روز سماعت کے دوران عدالت عالیہ کی ڈویژنل بنچ گلگت کی جانب سے جاری فیصلے کے مطابق وہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ رہنا چاہتی اس کے ساتھ رہنے کا مکمل حق رکھے گی لیکن وہ گلگت بلتستان کے حدود کے اندر رہنے کی پابند ہوگی عدالت عالیہ سے اس کیس کی سنائی کے فوراً بعد کمرہ عدالت میں فلک نور نے بیان دیا کہ میں اپنے شوہر فرید کے ساتھ جانا اور رہنا چاہتی ہوں واضح رہے کہ فلک نور کو پیر کے روز عدالت عالیہ گلگت میں پیش کیا گیا چیف جج علی بیگ اور جسٹس جہانزیب خان کی عدالت میں دوران سماعت دونوں فریقین کے وکلاء نے تقریباً ڈھائی گھنٹے تک بحث کی اور مختلف کیسز کا حوالہ دیا گیا بالخصوص دعا زہرا کیس سمیت مختلف دیگر پاکستان میں رونما ٹاپ لیول کے کیسز کے حوالے بھی دیئے گئے اس دوران 3 مختلف وکلاء جن میں احسان ایڈوکیٹ اور راشد عمر جو فلک نور کے والد سخی احمد جان کی جانب سے وکالت کی جبکہ دوسری جانب امجد ایڈوکیٹ عدالت کو اسسٹ کر رہا تھا اسی طرح فلک نور کی طرف سے اسد ایڈوکیٹ وکیل تھے اسد ایڈوکیٹ اور ان کی ٹیم نے بحث کے دوران فلک نور کیس کی بھرپور دفاع کی
اس دوران بچی کی عمر کی تعین حوالے سے میڈیکل رپورٹ بھی پیش کی گئی ایج رپورٹ میں ڈاکٹروں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ فلک نور کی عمر 13 سے 16 سال کے درمیان ہو سکتی ہے لیکن عمر کی پراپر تعین ڈی این اے کے ذریعے کی جا سکتی ہے ان تمام شواہد اور دونوں طرف وکلاء کے طویل بحث بعد آدھا گھنٹہ کورٹ وقفہ ہوا جس کے بعد دوبارہ ججمنٹ کے لیے چیف جج علی بیگ اور جسٹس جہانزیب کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے اور انہوں نے ایک مختصر سا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فلک نور جس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے وہ رہے لیکن عدالت کے حدود جو گلگت بلتستان کے چیف کورٹ کا حدود بنتا ہے اس کے اندر رہنے کی پابند ہوگی احاطے میں جس کے ساتھ رہے یہ ان کی مرضی ہوگی اس دوران فلک نور نے اپنے شوہر فرید عالم جس کے ساتھ اس نے نکاح کیا ہے کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں کا بیان دیا جس کے بعد فلک نور کو اپنے شوہر فرید عالم کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی #

 

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button