“غذا کی کمی کی وجہ سے میرا بچہ کمزور اور لاغر ہوگیا ہے ایک سال ہوچکا ہے مگر لگتا ہے چار مہینے کا ہے اس وجہ سے ہسپتال سے چاکلیٹ لینے ائی ہوں سنا ہے یہاں ہسپتال میں مفت میں چاکلیٹ ملتا ہے ۔”
ِیہ کہنا ہے شگفتہ کا
شگفتہ کا تعلق گلگت بلتستان کے پس ماندہ علاقہ داریل سے ہے سٹی ہسپتال میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بینیفشریز کو ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے دئیے جانے والے چاکلیٹ کے انتظار میں لائن میں گھڑی ہیں۔کبھی کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں اور کبھی لائن میں لگ جاتی ہیں شگفتہ کی گود میں ایک سال کا بچہ ہے جو مسلسل رورہا تھا ۔
شگفتہ نے مزید بتایا کہ میرے دس بچے ہیں اور میں اب امید سے بھی ہوں دو بچوں کی وفات بھی ہوگئی ہے میری صحت ٹھیک نہیں رہتی ۔غریب ہیں اسلیے یہاں ائی ہوں کہ حکومت کی جانب سے بچوں کو کھلانے کو چاکلیٹ مل رہا ہے میں خود بھی کھا لوں گی کیونکہ مجھے بھی کمزوری محسوس ہوتی ہے ۔
Mics ۔
ملٹی انڈیکیٹر کلسٹر سروے 2017-16 کے مطابق
غذائی قلت سروے میں کم وزن بچوں کی پیدائش گلگت بلتستان میں 30.5 فیصد ،گلگت 28.4 فیصد بلتستان 41.6 فیصد ،دیامر 21.6 ،استور 30.8 فیصد ،دیامر ڈویژن 191فیصد، گانچھے 33.7 فیصد،غذر 30.2 فیصد،گلگت،27.7 فیصد ،ہنزہ 21.1 فیصد،کھرمنگ 80.1 فیصد ،نگر 30.4،شگر 49.1،سکردو 41.3 فیصد ہے ۔
عمر کے تناسب سے قد کا نہ بڑھنا
سکردو 49.4فیصد،شگر 61.3فیصد, نگر 384فیصد،گھر منگ 65.5 فیصد ہنزہ 19.0 گلگت 29.9 غزر 43.9 گانچھے 52.3 دیامر 56.3 استور 33.8 فیصد ہے جس میں عورتوں کا تناسب 44.8 فیصد مردوں کا 47.6 فیصد ہے اور گلگت بلتستان میں ٹوٹل تناسب 46.2 فیصد ہے۔
اسی طرح قد کے تناسب سے وزن کا کم ہونا سکردو 2.3 شگر 0.8 نگر 1.7فیصد گھرمنگ 1.9فیصد ہنزہ 0.3 گلگت0.3فیصد غزر 1.5فیصد گانچھے 0.9 فیصد ،دیامر 9.7 فیصد استور 4.3 فیصد ہے۔پورے گلگت بلتستان میں 3.8 فیصد بچے قد کا تناسب وزن کا کم ہے۔
عمر کے تناسب سے وزن کا کم رہ جانا
سکردو میں 19.9 فیصد ،شگر میں 19.9، نگر 10.2 کھرمنگ 27.8 فیصد ہنزہ میں 5.2 گلگت 10.7 فیصد ،غذرمیں 15.9,گانچھے 13.6 فیصد ،دیامر 32.1 فیصد استور 13.6 فیصد اور خواتین 18.3 فیصد اور مردوں میں 20.4 فیصد عمر کے تناسب سے وزن کم ہے۔
ماہر غذائیت نیہا فاطمہ سٹی ہسپتال میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس جو بچے اتے ہیں ان میں چھوٹے قد اور کم وزن بہت ہی غریب خاندان کی خواتین اور بچے اتے ہیں جن کو ہم خوراک بھی دیتے ہیں اور ان کی کاونسلنگ بھی کرتے ہیں خواتین کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ بچوں کی نگہداشت کیسے کرنا ہے اور انہیں کیا غذا فراہم کرنا ہے ۔کم عمر پچیاں اور زیادہ عمر کی خواتین بھی اتی ہیں جن کا تعلق ضلع دیامر اور گانچھے ڈسٹرکٹ سے ہے ۔غربت اور بیداری کی کمی کی وجہ سے ان علاقوں کی خواتین ہر سال بچے پیدا کرتے ہیں ماں اور بچے کو بہتر خوراک نہیں ملتا بچے کو دو سال تک ماں کا دودھ نہیں ملتا جس سے یہ بچے کم وزن کی کمزور اور لاغر ہوتے ہیں ۔ان علاقوں کی خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اور انہیں اپنانے کے فائدے کے حوالے سے بھی کوئی معلومات نہیں رکھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ضلع دیامر سے ایسے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ملٹی انڈیکیٹر کلسٹر سروے (MICS)
کی سروے کے مطابق گلگت بلتستان کا ضلع دیامر سب سے نچلی سطح پر ہے جن میں سے بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ،غزائیت ،بچوں کی صحت،افزائش نسل تعلیم اور دیگر معاشرتی اعشاریہ میں افسوس کن نتائج سامنے آئے ہیں۔
اسی طرح کم عمری کی شادی کا شرح بھی سب سے زیادہ دیامر میں ہے اور تعلیم کا ریشو بھی بہت کم ہے۔
تحصیل داریل سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن پروین جاوید کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا سب سے پسماندہ ضلع دیامر کی پسماندگی کے زمہ دار بھی عوامی نمائندے ہیں جو شروع دن سے اسمبلی میں براجماں رہے مگر اپنے علاقے کی ترقی تعلیم صحت اور دیگر سہولیات اور عوامی مسائل پر کبھی توجہ ہی نہیں دی جس کی وجہ سے اج دیامر گلگت بلتستان کے سب سے پسماندہ ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔
اور جو ضلع دیامر کی پسماندگی کی سب سے اہم وجوہات میں تعلیم اور شعور آگاہی کی کمی ہے۔
شگفتہ سے جب خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی صحت تعلیم کے والے سے اگاہی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں تعلیم حاصل کرنے نہیں دیا جاتا ہے بلکہ خواتین جن کے کم بچے ہیں انہیں طعنے دئیے جاتے ہیں کہ آپ کے اتنے کم بچے ہیں ۔گھر کے حالات بھی بہتر نہیں، میاں کی بھی کوئی نوکری نہیں جس کی وجہ سے بچوں کیلیے اخراجات پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ماہر غزائیت نیہا کا مزید کہنا ہے کہ گلگت شہر میں حالات بہتر ہیں لوگوں میں اگاہی بھی ہے ڈیلیوری کے دوران بہتر خوراک کھاتے ہیں اور گھر والے بھی حاملہ خواتین کا خیال رکھتے ہیں اور انہیں متوازن غذا مہیا کرتے ہیں مگر دور دراز علاقوں سے انے والی خواتین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ حاملہ خواتین کو کس قسم کی غذائیت درکار ہوتی ہے اس وجہ سے انکے بچے بھی بہت کمزور اور بیمار ہوتے ہیں ۔انہوں نے مزید بتایا کہ یونیسیف کی طرف سے متوازن غذا کی ضرورت کو پورا کرنے کیلیے ملنے والے خوراک سے کافی تبدیلی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔وہ خواتین جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والی
خواتین اور انکے بچوں کو غذا فراہم کی جارہی ہے۔
خواتین کو چاہیے کہ وہ حمل کے دوران اپنے خوراک کا بہتر خیال رکھے متوازن غذا کھائیں سبزیاں اور فروٹ گھروں میں ہی ہوتی ہیں ۔
تاکہ خواتین کی صحت بھی بہتر رہے گی اور بچے بھی صحت مند پیدا ہوں گے ۔