Uncategorized

صدارتی ایوارڈ کیلیے نامزد گانچھے سے تعلق رکھنے والی خاتون کون ہیں؟

تعلیم کے شعبے میں کارنامہ کیا ہے؟

عنیقہ بانو کا تعلق گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے گانچھے سے ہے وہ کہتی ہیں کہ صدارتی ایوارڈ کے لیے
مجھے منتخب کیا گیا ہے جس پر مجھے بے حد خوشی ہے۔
عنیقہ بانو نے اپنی کامیابی کے سفر کے حوالے سے بتاتے
ہوئے کہ شاید میں ان بچوں کے لیے کام کرنے کا نہیں سوچتی اللہ تعالی نے مجھے مجبور کیا اور مجھے دو پھول جیسی بیٹیاں عطا کی جو قوت سماعت سے محروم تھی ۔
اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے مگر ہمارے معاشرے میں افراد باہم معذوروں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا جاتا ہے ۔جب میں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا سوچا اور کہا تو لوگوں نے میرا مذاق اڑایا کیونکہ اس وقت افراد باہم معذور چاہے وہ قوت گویائی یا سماعت سے محروم ہو وہ گھروں تک ہی محدود تھے ایسے لوگ صرف گھر کے کام کاج کے لیے مختص تھے مگر جب میں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہوتا تو ارادہ کر لیا کہ میں ان کے لیے کچھ کر گزروں گی ۔

جب لوگ ان کو مختلف القابات سے پکارتے تو مجھے برا لگتا اور دکھ ہوتا ۔میں اور میرے شوہر نے عہد کیا کہ ہم ان بچوں کے لیے کچھ کریں گے ۔ہم نے اپنے بچوں کو سکول میں داخلہ کروایا اور خود بھی سائن لینگویجز سیکھا ۔
ہم گاؤں واپس اس نیت سے لوٹے کہ ہم اپنے علاقے میں ان بچوں کے لیے کچھ کریں گے اور ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا شروع شروع میں ہمیں اپنے لوگ اور معاشرے کے لوگ برا بھلا کہتے اور یہ کہتے کہ یہ لوگ پتہ نہیں کس کام پہ لگ گئے ہیں ۔مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ان بچوں کے تعلیم تربیت ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کے فرد کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے ۔
اور الحمدللہ ہمارے بچوں نے نہ صرف پاکستان لیول پر بلکہ انٹرنیشنل لیول پر مختلف مقابلوں میں حصہ لیا اور ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔ہمارے بچوں نے دوسرے عام بچوں کی طرح قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی بورڈ کے امتحانات میں بھی پوزیشن حاصل کیا۔
میں نے ایک راہ ہموار کی کہ افراد باہم معذور معاشرے کا حصہ ہے اور انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، وہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے لیے بہتر روزگار خود کما سکتے ہیں۔
ہمیں کسی نے سپورٹ نہیں کیا بلکہ اپنی مدد اپ کے تحت ہم نے محنت کی اور افراد باہم معذوروں کے لیے کام کیا اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ معاشرے کا بہتر شہر بن کر اپنی زندگی گزار سکتے ہیں ۔جس کے لیے نہ ہمیں گورنمنٹ سطح پہ کوئی مدد ملی بلکہ اپنی مدد اپ کے تحت کام کیا ۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مرتے وقت ہمیں اس بات کا افسوس نہیں ہوگا کہ ہم نے کام نہیں کیا بلکہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے ان بچوں اس کو بہتر زندگی گزارنے کے سلیقے سکھائے ہیں ۔
صدارتی ایوارڈ کیلیے نامزد کیا ہے مجھے خوشی ہے کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی بلکہ میرے محنت کا صلہ مل گیا ہے اور میں اس ایوارڈ کیلیے اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔

شیرین کریم

شیرین کریم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ ایک فری لانس صحافی ہیں جو مختلف لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ رپورٹنگ کرتی ہیں ۔ شیرین کریم فیچر سٹوریز ، بلاگ اور کالم بھی لکھتی ہیں وہ ایک وی لاگر بھی ہیں اور مختلف موضوعات خاص کر خواتین کے مسائل ,جنڈر بیسڈ وائلنس سمیت عوامی مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر اکثر لکھتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button