گلگت ( کرن قاسم ) گلگت بلتستان میں ریسکیو 1122 نے ابھی تک 55 ہزار سے زائد ہنگامی صورتحال پر اپنے خدمات انجام دیئے اور اس دوران لاکھوں افراد کی زندگیاں بچانے اور لوگوں کے املاک کو مزید نقصان سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہماری ریسکیو ٹیمیں پورے خطے میں 24 گھنٹے چوکس رہتیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس ایمرجنسی ادارے کے ساتھ بعض لوگ مذاق کرتے ہیں کوئی فون کرکے ایزی لوڈ اور کوئی کھانا مانگتا ہے ایسے فیک کالز کی وجہ سے نمبر مصروف رہتا جس سے کسی دوسرے کو مدد درکار ہو تو اس صورت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ان خیالات کا اظہار ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفسر گلگت بلتستان انجینئر طاہر نے اوصاف کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا انہوں نے مزید بتایا کہ پورے گلگت بلتستان میں ہمارے پاس 517 عملہ ہیں جس میں 35 خواتین عملہ بھی شامل ہیں جو شعبئہ خواتین واقعات پر فرائض انجام دیتی ہیں انھوں نے کہا کہ ہمارے ادارے میں ہنگامی صورتحال پر مختلف شعبوں میں فرائض انجام دینے والے تجربہ کار سٹاف موجود ہوتے ہیں جس میں روڈ حادثات، آگ واقعات، دریائی واقعات، پہاڑی واقعات سمیت دیگر ہارٹ ایمرجنسی وغیرہ میں مہارت رکھتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ہمارے ادارے میں جتنے بھی آگ بجانے کا عملہ موجود ہے ان سب کی تربیت پنجاب سے ہو کر آئی ہوئی ہے اور یہ عملہ فائر فائٹنگ کے شعبے میں بہترین خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں اور فائر فائٹنگ کر کے فوری طور آگ پر قابو پایا جاتا ہے اسی طرح دیگر شعبوں میں فرائض انجام دینے والے عملہ کا کردار بھی نہایت قابل تعریف ہے انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ گزشتہ 6 ماہ میں 288 ایمرجنسی کیسز ہمارے ادارے کو رپورٹ ہوئے اور ان میں ہمارے ماہرین عملہ نے بھرپور انداز میں کردار ادا کیا ان واقعات میں 67 افراد جانبحق اور 350 زخمی ہو گئے جنہیں ہسپتالوں تک پہنچانے اور جائے حادثے تک پہنچنے فرسٹ ایڈ دینے میں خدمات انجام دیا گیا انھوں نے ایک اور سوال کے جواب میں اوصاف کو بتایا کہ ملک کے دیگر حصوں سے گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کو اکثر ان چند وجوہات کی بنا حادثوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے سیاح عموماً روڑ پر سفر کرتے وقت آس پاس خوبصورت مقامات کے نظارے کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرتے ہیں یا دوران ڈرائیونگ موبائل کا استعمال یا پھر ٹیبلیٹ سمیت کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں کیونکہ وہ شہر کی ڈرائیونگ سے عادی ہوتے وہاں روڑ کئی میل تک سیدھا ہوتا ہمارے خطے میں ہر دو منٹ بعد موڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے سیاحوں کی یہ اپنی غلطی ہے کہ وہ شہر اور پہاڑی سلسلوں سے گزرنے والی شاہراہوں میں فرق محسوس نہیں کرتے انھوں نے فیک کالز کے حوالے سے بتایا کہ 2012 میں اسمبلی سے باقاعدہ اس حوالے قانون پاس ہوا ہے جس کے مطابق فیک کال کرنے والے پر 50 ہزار جرمانہ اور 6 ماہ قید کا قانون موجود ہے جبکہ بعد ازاں انٹرویو اوصاف ٹیم نے ریسکیو کنٹرول روم گلگت کا دورہ کیا اس دوران ہنگامی صورتحال میں استعمال ہونے والے آلات کا جائزہ لیا گیا اس دوران کنٹرول روم کے فرائض میں موجود طارق اقبال سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے پاس دنیور اور گلگت شہر کو ملا کر 16 گاڑیاں ہیں جن میں 6 ایمبولینس اور 4 فائر گاڑیاں و دیگر کرین گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں 2012 سے اب تک ان ہی گاڑیوں سے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ اصولاً ان ایمرجنسی حالات میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ 3 سال تک کا ہوتا ہے ہم 12 سالوں سے ان گاڑیوں کے زریعے خدمات انجام دے رہے ہیں ملک کے دیگر حصوں میں ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے پاس جدید مشینری موجود ہے گلگت بلتستان کے لئے بھی جدید قسم گاڑیوں کی ضرورت ہے تاکہ ریسکیو عملہ ہنگامی صورتحال کے دوران زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کے سہولیات فراہم کر سکے