صحت
رجحان ساز

دیہی علاقوں کی خواتین خاندانی منصوبہ بندی سے دور کیوں ؟؟؟

خاندانی منصوبہ بندی سے واقفیت وقت کی اہم ضرورت ۔

 ماں اور بچے کی صحت خراب ہونےکی بنیادی وجہ وقفے سے دوری ہے

تحریر:- کرن قاسم

گلگت بلتستان 28 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا خطہ ہے اور اس میں موجود آبادیاں اپنی تعداد میں دیہاتی اکثریت رکھتی ہے جہاں پر زندگی بسر کرنے والی دیہاتی خواتین بلخصوص گھریلو خواتین کو صحت کے بنیادی سہولیات و انہیں آگاہی حاصل نہ ہونے کے باعث عموماً شادی کے بعد مختلف بیماریوں کی شکار ہو جاتیں ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے بعض ایسے اضلاع کے نواحی علاقے بھی موجود ہیں جہاں اب بھی خواتین کو اس جدید دور میں صحتی اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے اہم سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں زندگیاں بسر کرنے والی خواتین بلخصوص شادی شدہ خواتین جو اکثر ماں بننے کے بعد بیمار رہتی جن کی صحت محفوظ رکھنے کے لئے نہ یہاں حکومت کی طرف سے کوئی سہولیات میسر ہوتیں اور نہ ہی وقفے کے حوالے سے کوئی آگاہی مہم کا آغاز ہوتا ماں بغیر وقفے کے بچے پیدا کرتی جارہی ہوتی ہے اکثر
دیہاتی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو بغیر وقفے کے بچے پیدا کرنے کے علاؤہ گھریلو کام کاج سمیت مال مویشیوں کی دیکھ بھال اور کھیتوں پر کام کا سارا بوجھ بھی ان کو اٹھانا پڑ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شادی شدہ دیہاتی خواتین کی صحت متاثر ہوتی بلکہ پیٹ میں موجود یا نو مولود بچے کی صحت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جب ایسے حالات میں ان ماؤں و نوزائیدہ بچوں اور حملہ خواتین کو شہر کے ہسپتالوں تک پہنچایا جاتا تب تک ان کی زندگیاں بچانے ڈاکٹر کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا
یہ سب صورتحال دیہات میں خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز یا حملہ خواتین کے لئے آگاہی ذریعہ سرے سے موجود نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے لیے 2016/2017 MICS کی ایک سروے رپورٹ کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ایم آئی سی ایس سروے کے مطابق ضلع دیامر میں 13 فیصد شادی شدہ جوڑا روایتی طریقہ سے مانع حمل کو روکتے ہیں جبکہ 11 فیصد ماڈرن طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں اسی طرح گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کے جدید اور پرانے طریقے اپنا رہے ہیں ۔ جس میں ضلع استور میں 24 فیصد ماڈرن طریقہ اپناتے ہیں اور ضلع کھرمنگ میں 25 فیصد ضلع گانچھے میں 32 فیصد ضلع شگر میں 33 فیصد ضلع سکردو میں 33 فیصد ضلع نگر میں 30 فیصد ضلع گلگت میں 33 فیصد ضلع ہنزہ میں 47 فیصد اور ضلع غذر میں 57 فیصد شادی شدہ جوڑے خاندان منصوبہ بندی کے جدید طریقے اپناتے ہیں

اس حوالے سے جب ہم نے ضلع دیامر کی تحصیل داریل سے تعلق رکھنے والی ایک روبینہ نامی خاتون ( جس کا یہ فرضی نام ہے ) سے پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ ہمارے گاؤں میں گلگت بلتستان کے دیگر شہروں کی طرح صحت کے مراکز موجود نہیں اور نہ ہی اس دور افتادہ علاقے میں صحت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں آگاہی کا کوئی سہولت میسر ہے انھوں نے اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرا رشتہ بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی میرے والد کے بھائی کے بیٹے یعنی سگے چچا زاد بھائی کے ساتھ طے پایا گیا تھا جب میں 15 سال کی عمر میں پہنچنے لگی تو دونوں خاندانوں نے میری رخصتی کرانے کا فیصلہ کیا اور شادی ہو کر شوہر کے گھر آئی اسی طرح میری پہلی اولاد کی پیدائش میری 17 سال کے عمر میں ہوئی تھی تب تو مجھے خاندانی منصوبہ بندی کا مجھے تو کیا سارے گاؤں والوں کو بھی اس کا علم نہیں تھا حتی کہ اس خاندانی منصوبہ بندی کے بارے پہلی بار میں سن رہی ہوں اس وقت میرے 10 بچے ہیں جس میں 6 بچیاں اور چار لڑکے ہیں دس بچوں کی ماں ہوں لیکن بچوں کے پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے میری صحت ہمیشہ خراب رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میری صحت بہتر نہ رہنے کی وجہ سے میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے جس سے چھ بچے ہیں اور اس کی بھی صحت بچوں کی پیدائش کے بعد خراب ہونے سے اب میرے شوہر نے دو ماہ پہلے تیسری شادی بھی کر چکے ہیں بس یہی وجہ ہے کہ علاقے میں خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز موجود نہ ہونے کی وجہ سے خواتین وقفے جیسے اہم سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث مرد حضرات ہیوی کی صحت متاثر ہونے پر دوسری شادی کر جاتے ہیں

ڈاکٹر شرین سلطان نے بتایا کہ ہمارے یہاں عموماً بچوں کے وقفے کے لئے صرف کنڈوم کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ اس کے علاؤہ بھی بہت سارے طریقے موجود ہیں جن کے زریعے بھی وقفہ کیا جا سکتا بیشک جنسی تعلق سے ایک دوسرے پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے روک تھام کیلئے کنڈوم کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے سب سے بہتر یہ ہے کہ بچوں کے وقفے حوالے سے میاں بیوی کو کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ لینا ضروری ہے ڈاکٹر جس طرح مشورہ دے اسی کے مطابق آگر وہ بچوں میں وقفے کا سلسلہ جاری رکھے تو اس صورت ماں اور بچے کی صحت بھی بہتر حالت رہ سکتی ہے انھوں نے کہا کہ کنڈوم کا استعمال بعض اوقات مثبت ثابت نہیں ہوتے
اس کے متبادل بھی بہت سارے طریقے ڈاکٹروں کے پاس موجود ہیں وقفے کرنے کے طریقے تجویز کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری سمجھتے ہیں کہ بیوی میں کہیں کوئی رسک فیکٹرز موجود تو نہیں جس سے وقفے کا طریقہ نقصاندہ ثابت نہ ہو اس کے مطابق ہی رنگ ڈالنے ، نسبندی ، ٹیبلیٹ یا کنڈم کا استعمال پر بہتر مشورہ دیا جا سکتا
ڈاکٹر شیرین سلطان نے ایک سوال پر کہا کہ دوران ماہواری بعض خواتین کو زیاده خون آنے کی شکایات ہوتی ہے لیکن ہم اس متعلق متعلق کرچکے ہوتے ہیں یہ کوئی خطرے کی علامت نہیں تا ہم اس کو کنٹرول کرنے کے لئے ادویات بھی دیتے ہیں جس سے تین ہفتے کے اندر خون کا مقدار اپنی برابری میں آجاتا ہے انھوں نے کہا کہ
انفیکشن مانع حمل ادویات و دیگر طریقوں سے یا عورت کے بچہ دانی میں کوائل سے انفیکشن نہیں پھیلتا بلکہ جن آلات کو اسے رکوانے درست طریقے سے استعمال نہیں کئے جاتے انفکشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے اندر دوران زچگی عمل کئی مائیں اپنے زندگی کھو چکی ہوتی ہیں
انھوں نے مزید کہا کہ بچوں میں 2 یا 3 سال وقفے بعد حمل سے پہلے ماں صحت مند حالت میں ہوتی اور اس صورت ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بھی خطرے سے بچ جاتیں ہیں

انسانی حقوق گلگت بلتستان کے نمائندے اسرار الدین اسرارِ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سال بہ سال آبادی بڑھتی جارہی ہے اس کی بنیادی وجہ ایک طرف صوبائی حکومت کی کمزوری دوسری طرف خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے علماء کرام کا اختلاف ہے جس کی وجہ سے ضلع دیامر کے اندر ایک ایک خاتون 8 سے 10 تک کے بچے پیدا کرتی ہے پھر دس بچوں کی ماں کو زمینداری کے مرحلے سے بھی گزارا جاتا ہے اس طرح بعض کیسز ایسے بھی سامنے آگئے ہیں ڈیلوری کے دوران اولاد سمیت ماں دم توڑ گئی یا پھر ماں اور بچے میں سے کسی ایک کی جان چلی گئی اس طرح بہت سارے کیسز رونما ہوئے ہیں جب ایسے علاقوں میں وقفے کا طریقہ بیان کیا جاتا ہے تو علماء کرام اس طریقہ کار کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کی زندگیاں صحت خرابی باعث خطرے میں ہوتی ہیں دوسری جانب صوبائی حکومت کی طرف سے بھی اب تک ایسا کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آیا جس کے زریعے وہ ایسے علاقے جہاں وقفے کے خلاف ہو کر خواتین کو ایک ستم سے گزارا جاتا کو وقفے پر پابند کیا جا سکے

وزیر سوشل ویلفیئر دالشاد بانو نے کہا کہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کی یہ کوشش ہے کہ دیامر ، گلگت اور بلتستان ڈویژن کے بعض بالائی علاقوں جہاں دشوار گزار پہاڑی راستوں بعد لوگ آباد ہیں میں خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز قائم کئے جائیں تاکہ دور دراز علاقے میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے وہاں کی خواتین کو شہر آکر اس منصوبے سے استفادہ حاصل کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے جس کے لئے صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے نالہ جات میں واقع آبادیوں اور اس میں رہنے والی خواتین بابت ایک حکمت عملی پر کام کر رہی ہے بہت جلد برف پوش چوٹیوں پر آباد اور نالوں میں رہائش پذیر خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی جیسے سہولیات سے منسلک کیا جائے گا جس سے خواتین کو نہ صرف بچوں کے وقفے سے متعلق آگاہی فراہم ہو گی بلکہ اس کے قیام سے خواتین کی صحت جو حمل دوران یا بچے کی پیدائش کے بعد اکثر خراب صحت رہتی اس سے چھٹکارا حاصل ہو گا انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی خواتین کو جہاں خاندانی منصوبہ بندی کے سہولیات میسر نہیں وہاں صوبائی حکومت موبائل سروس کے ذریعے سہولیات پہنچا رہی ہے تاہم موسم سرما میں جہاں بعض دیہاتی علاقوں میں شدید برف باری کی وجہ سے راستے آمدورفت کے لئے چھ چھ ماہ تک بند رہتے ہیں اس دوران وہاں کی خواتین اس مہم سے قاصر رہتی ہیں جس کے لئے بھی حکومت متبادل اقدامات اٹھا رہی ہے

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button