اہم ترین

بونجی ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ کون؟؟؟

19 سال بعد بھی کام شروع نہ ہوسکا

گلگت ( کرن قاسم ) گلگت بلتستان میں 4 بڑے دریاؤں کی موجودگی کے باوجود خطہ اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے گلگت بلتستان میں بجلی کی ضرورت سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے لیکن ماضی کے مختلف ادوار سے جاری پن بجلی گھروں کا تعمیراتی کام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے سردیوں میں پانی کی کمی اور موسم گرما میں پن بجلی گھر واٹر چینل کا کبھی لینڈ سلائیڈنگ کے زد میں آنے اور کبھی شارٹ فال تو کبھی ٹربائن میں ٹیکنیکل خرابی کا مسلہ سامنے رکھتے ہوئے لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہوتی ہے دراصل یہاں گلگت بلتستان میں ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں ہر آنے والی نئی حکومت جتنے بھی عوامی بنیادی مقصد کے بڑے بڑے منصوبے ماضی کے ادوار حکومتوں میں منظور کئے گئے ہوتے ہیں ان کو آگے بڑھانے کے بجائے وہ اپنے نئے منصوبے لیکر 5 سالہ مدت پوری کرتی ہے جس کی وجہ سے ماضی میں دئیے گئے منصوبے کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں ابھی جیسے گلگت کے مقام 20 میگاواٹ ہنزل پن بجلی گھر کا منصوبہ جو 2018 جون کے مہینے لیگی دور حکومت نے منظوری دی تھی ہنزل پاؤر پروجیکٹ کا یہ منصوبہ 12 ارب 92 کروڑ روپے کی لاگت سے 3 سالہ مدت میں مکمل ہونا تھا لیکن 6 سال گزرنے کے باوجود اس میں ابھی تک 20 فیصد کا کام بھی نہیں ہوا ہے جبکہ ہم اگر اس سے بھی مذید پیچھے جا کر ماضی کے دیگر پن بجلی منصوبوں کی بات کریں تو دیامر ڈیم نے 2015 میں مکمل ہونا تھا لیکن اس میں مزید 15 سال لگ جانا ہے تب ہمیں بجلی لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل ہوگی اسی طرح گلگت بلتستان میں دیامر ڈیم پاؤر منصوبے کے بعد سب سے بڑا پاؤر پروجیکٹ جو بونجی کے مقام تعمیر ہو رہا ہے اس کی فزیبلٹی کے بعد یہاں گلگت بلتستان میں 5 حکومتیں تبدیل ہوئی لیکن کسی دور حکومت نے اس کے کام میں تیزی لانے کے لئے حرکت تک نہیں دکھائی ہے جس کی وجہ سے بونجی پن بجلی گھر کا منصوبہ ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے اور گزشتہ 20 سالوں سے دریائے سکردو کے پانی سے تعمیر ہونے والا 7000 سے زائد میگاواٹ کا بونجی پاؤر پروجیکٹ ہر دور حکومت میں فائلوں کے اندر سویا ہوا ہوتا ہے واضح رہے کہ بونجی پاؤر پروجیکٹ کی فزیبلٹی رپورٹ 2005 میں تیار کی گئی تھی جس کے بعد باقاعدہ طور اس منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کی متعلقہ کمیشن نے منظوری بھی دے رکھی تھی جس کے بعد 2017 میں 1520 ارب روپے کا بونجی پاؤر پروجیکٹ پی سی ون منصوبہ کی تعمیر حوالے سے سمری حکومت کو بھجوا دی گئی تھی جبکہ اس سے 2 سال قبل 2015 کو گلگت میں قائم تحفظ ماحولیات کے محکمہ نے باقاعدہ طور بونجی پاؤر پروجیکٹ کی تعمیر کے لئے این او سی جاری کر چکی تھی اس منصوبے نے تعمیر کے بعد ایک سال میں 24 ارب 76 کروڑ یونٹ بجلی پیدا کرنا تھا لیکن افسوس کا مقام ہے بونجی پاؤر منصوبہ 2015 میں مکمل ہو کر 7 ہزار 1 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تھا ہر دور میں آنے والے حکمرانوں نے اس اہم پاؤر منصوبے کی طرف خصوصی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے بجائے 2015 کو مکمل ہونے کے گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے اس کی این او سی 2015 میں ملی واضح رہے کہ 2005 میں بونجی پاؤر پروجیکٹ کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے میں 2 ارب 13 کروڑ روپے خرچ کئے جا چکے ہیں جس کے بعد چند انجینئر و چند مزدور کے علاؤہ بونجی پاؤر پروجیکٹ سائٹ پر نہ سنجیدگی سے کام کرنے کوئی ہیوی مشینری نظر آرہی ہے اور نہ ہی کوئی اس منصوبے پر ہوتا ہوا کام دکھائی دے رہا ہے یہاں گلگت بلتستان میں جب سردیاں شروع ہو جاتی ہیں تو شدید قسم لؤڈ شیڈنگ کا دورانیہ سے عوام کو گزرنا پڑ رہا جس سے صوبائی حکومت کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ان سب مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہنزل پن بجلی گھر اور بونجی پن بجلی گھر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دیں تاکہ حکومت کو تنقید سے اور عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل سکے گی۔

کرن قاسم

کرن قاسم گلگت بلتستان کی پہلی ورکنگ خاتون صحافی ہے جو گلگت بلتستان کی خواتین سمیت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button