اہم ترینخواتین

ایسا کیا تھا کہ بچپن کی شادی کی وجہ سے خاتون کو ویمن اف دی ائیر قرار دیا گیا۔

فیسٹولا سے متاثر گلگت بلتستان کی خواتین

تحریر شیرین کریم

گاوں والے اکر مجھے دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ اسکے ساتھ کیا مسلہ ہوا ہے اور میرا مزاق اڑا کر چلے جاتے تھے ، اس مسلے کی وجہ سے گھر والے بہت تنگ ائے ہوئے تھے اور میرے پاس علاج کیلیے پیسے بھی نہیں تھے جب میں ہسپتال میں تھی میرے سسر نے ڈاکٹر کو کہا کہ مجھے زہر کا ٹیکہ لگائیں تاکہ میرا مسلہ ختم ہوجائے

یہ کہنا ہے سیما کا

سیما پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے ضلع استور کے دورافتادہ گاوں سے ہے ان کو فیسٹولا کی مرض کا سامنا ہے اس سے پہلے فیسٹولا کی تفصیلات جانیں پہلے سیما کی کہانی کو لے کر چلتے ہیں ۔ سیما جب 16 سال کی تھی تو فیسٹولا کے مرض کا سامنا کرنا پڑا

سیما کہتی ہیں کہ “جب میں 13 سال کی تھی تو میری شادی اپنے کزن کے ساتھ ہوگئی مجھے علم نہیں تھا کہ شادی کے بعد ایک خاتون کو کن پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص کر کم عمر لڑکیوں کو جب میں امید سے ہوگئی تو میری عمر 16 سال تھی اور میں فیسٹولہ کے مرض میں مبتلا ہوگئی ،علاقے اور گاوں والے مجھے دیکھ کر پریشان ہوتے تھے کہ اسے کیا ہوا ہے اور میرا مزاق اڑا کر جاتے تھے میرے گھر والے بھی مجھ سے پریشان تھے اور مجھے زہر کا ٹیکہ لگانے ڈاکٹر کو کہ کر گئے تو مجھے لگا شائید میری زندگی ختم ہوگئی اور میں بہت روئی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لیا کہ میری مشکل آسان کردے۔”

کم عمری کی شادی کے نقصانات

بچپن کی شادی کے نقصان دہ اثرات شادی شدہ لڑکی کی صحت، ولادت کے دوران ممکنہ پیچیدگیوں، اور تعلیم اور ذاتی نشوونما میں رکاوٹوں تک پھیلتے ہیں۔ مسلسل اور بے قابو بچے پیدا کرنے کے نتیجے میں آبادی میں اضافہ وسائل کو تنگ کر سکتا ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں غربت کا باعث بنتا ہے۔
کم عمری کی شادی کے خلاف عالمی کوششوں اور اسلامی ممالک سمیت متعدد ممالک کے قوانین کے نفاذ کے باوجود یہ رواج برقرار ہے۔ پاکستان میں کم عمری کی شادی کے منفی نتائج کے بارے میں آگاہی اور سمجھ کی کمی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ اور 18 سال سے کم عمر بچوں خاص کر لڑکیوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے جیسے کہ سیما کی کہانی اب ختم نہیں ہوئی
نہ صرف سیما بلکہ کئی خواتین فیسٹولا اور دیگر مرض میں مبتلا ہو کر زندگی انکی عذاب میں گزر جاتی ہے جو کبھی ٹھیک ہوجاتی تو کبھی بچ بھی نہیں پاتی ۔

ماہر ڈاکٹرز اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں ؟

ڈاکٹر سجاد کوہی گوٹ ہسپتال سندھ میں مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں نے کہا کہ میں سچ میں اکثر ان خواتین کو دیکھ کر رونا شروع کردیتا ہوں جو اس بیماری میں مبتلا ہوکر ملک کے دور دراز علاقوں سے میلوں سفر طے کرکےکوہی گوٹ فیسٹولا سنٹر سندھ اپنا علاج کراونے اتی ہیں اور کچھ اب بھی علاج کے منتظر ہیں ، کہ ہمارے ملک میں بنیادی سہولیات بھی خواتین کو میسر نہیں۔

ڈاکٹر نازنیں سٹی ہسپتال گلگت میں گائناکالوجسٹ ہیں اور فیسٹولہ کے مریضوں کا علاج بھی کرتی ہیں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں دیامر، استور ،سکردو، کھرمنگ،داریل اور غذر کے دور دراز علاقوں کے خواتین فیسٹولا کے مرض میں مبتلا ہوکر اتی ہیں ان علاقوں میں ایک تو صحت کی سہولیات نہیں یا تربیت یافتہ دایعہ کے ہاتھوں ڈیلیوری نہیں ہوتی اور سب سے اہم بات کم عمری کی شادی اسکی اہم وجہ ہے لڑکیاں جو خود بچیاں ہوتی ہیں انکی کم عمری میں شادیاں ہوتی ہیں انکا جسم ایک بچے کو جنم دینے کے لائق نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالی نے ایک نظام بنایا ہے جس میں لڑکیاں بلوغت سے گزرتی ہیں اسکے بعد طبعی لحاظ سے اسکا جسم بنتا ہے 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی جن کی شادی ہوتی ان کے ساتھ یہ پیچدگیاں ہوتیں ہیں اور اگر اس مرض میں مبتلا ہوجائے تو اسکا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔

فیسٹیولا کیا ہے

حمل اور زجگی کے دوران ماں کی صحیح دیکھ بھال اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے جسم میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور انہیں بعض ایسی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جو زندگی بھر کے لیے معذور بنا دیتی ہیں ان بیماریوں اور معذوریوں میں سب سے تکلیف دہ بیماری فسٹیولا ہے جو نہ صرف جسمانی اذیت کا باعث ہوتی ہے بلکہ اس کے شدید نفسیاتی اس سماجی اثرات عورت کو تباہ کر دیتے ہیں

فسٹولا کیسے ہوتا ہے
جن لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے ان کا جسم اور ہڑیاں کمزور ہوتی ہیں جسم اور ہڑیوں کی مکمل نشوونما سے پہلے اگر ان کے یہاں بچے پیدا ہوں تو انہیں فسٹولا کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے بڑی عمر کی وہ عورتیں جن کے یہاں زیادہ بچے ہوئے ہوں اور ان کے عضلات اتنے مضبوط نہ رہے ہوں کہ زچگی کے وقت بچے کو باہر دھکیل سکے وہ بھی اس تکلیف میں مبتلا ہو سکتے ہیں دونوں صورتوں میں عورت کے لیے بچے کو باہر دھکیلنا مشکل ہوتا ہے بچے کا سر مثانے اور وجائنہ کے درمیان عضلات کی دیوار پر مسلسل رگڑ کھاتا اور دباؤ ڈالتا رہتا ہے جس سے دیوار میں سراخ ہو یعنی فیسٹولا ہو جاتا ہے اس صورت میں اکثر مرا ہوا بچہ پیدا ہوتا ہے ایسی عورت کو فوری طبی مدد نہ ملے تو عورت یا لڑکی کو روز مرہ زندگی بے انتہا تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔

کیا گلگت بلتستان میں بھی اس مرض کا علاج ہوتا ہے ؟

گلگت بلتستان کے مریضوں کیلیے بھی ڈاکٹر شیر شاہ اور اسکی ٹیم ہر سال گلگت میں کیمپ لگاتے ہیں انکا مفت علاج اور اپریشن کیا جاتا ہے اور معمولی کیسز کو گلگت سٹی ہسپتال میں ہی انکا علاج کیا جاتا ہے کچھ اسلام اباد ریفر کیا جاتا ہے اور جن کی کیسسز زیادہ پیچیدہ ہوں انہیں کراچی فسٹولا ہسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔مگر کوئی ہسپتال نہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اپنی نویت کا پہلا فیسٹولا کا ہسپتال ہے ملک بھر سے اور افغانستان،ایران،شارج,یمن سے بھی مریض اتے ہیں۔
پاکستان کے دوردراز علاقوں سندھ پنجاب ،چترال اور گلگت بلتستان اسکردو بلتستان استور،دیامر غذر کے دوردراز علاقوں سے مریض ہمارے پاس اتے ہیں اب تک تقریبا 40 کے قریب گلگت بلتستان کے مریضوں کا مفت اپریشن صرف کراچی ہسپتال میں کیا گیا ہے اور ہر سال ان علاقوں سے مریض ہمارے پاس آتے ہیں جن میں زیادہ تر ان علاقوں سے ہیں جہاں بچوں کی جلدی شادیاں ہوتی ہیں دوردراز علاقوں میں ایک تو ٹھنڈ ہوتی اور دوسرا غربت اور تیسرا صحت کی سہولیات نہیں ہونے کی وجہ سے بچیاں فیسٹولا کے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ کا مزید کہنا ہے کہ 2023 میں سب سے پیچیدہ مسلے کے ساتھ ایک خاتون ہمارے پاس آئی جو فیسٹولا کے مرض میں مبتلا تھی اور اسکا تعلق گلگت بلتستان سے تھا ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دیا تھا مگر کوہی گوٹ ہسپتال میں علاج کے بعد اسکا کامیاب اپریشن بھی ہوا جس کو موت کے منہ سے واپس لایا گیا۔اور اس مشکل اپریشن کے کامیاب ہونے کے بعد لڑکی ٹھیک بھی ہوئی جس کی وجہ سے اسے ویمن اف دی ائیر قرار پائی ۔جس کے خاندان اس سے تنگ اکر اسے زہر کا ٹیکہ لگانے والے تھے۔ہر سال گلگت بلتستان سے ہمارے پاس مریض اتے ہیں اب بھی گلگت بلتستان کے مریض ہمارے پاس موجود ہیں۔

چائلڈ میرج ایکٹ کیا کہتا ہے؟

پاکستان کا چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 ان شادیوں کو جرم قرار دیتا ہے جن میں لڑکیوں کی 16 سال سے کم عمر اور لڑکوں کے لیے 18 سال سے کم عمر افراد شامل ہوں۔ پاکستان، بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کرنے کے بعد، لڑکوں کی 18 اور لڑکیوں کی 16 سال سے کم عمر کی شادیوں کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے تمام صوبوں نے اپنے ضابطے قائم کیے ہیں، مخصوص صوبائی رہنما خطوط کی عدم موجودگی میں قومی قانون کو فوقیت حاصل ہے۔اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر چھ ماہ تک قید کی سزا اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے

سروے رپورٹ میں کم عمری کی شادی کا تناسب کتنا ہے؟
ملٹیپل انڈیکیٹر کلسٹر سروے 2016-17 گلگت بلتستان میں بچوں اور خواتین کی صورتحال کو جانچنے کیلیے یونیسف اور محکمہ پلاننگ نے کیا جن میں گلگت بلتستان کے 6460 گھرانوں کے نمونے لیے گئے۔

گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادیوں کی شرح نمایاں طور پر زیادہ ہے، جو کہ 2017 میں جی بی حکومت کی طرف سے کرائے گئے ملٹی انڈیکیٹرز کلسٹر سروے (MICS) کے مطابق 26% تک پہنچ گئی ہے۔ 2015 میں قانون سازی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، کیونکہ مخالفت کی وجہ سے مسودہ جی بی اسمبلی سے موخر کر دیا گیا تھا۔

ہیومن رائٹس کے کوارڈینٹر اثرار الدین اثرار کے مطابق سروے کے مطابق گلگت بلتستان 26 فیصد کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں ان کو روکنے کیلیے قانون سازی 2015 میں کوشش کی گئی مسلم لیگ ن کے دور میں جو کہ نہیں ہوسکی اسے متنازعہ بناکر اسے روکا گیا لیکن نیشنل لاء چائلڈ میرج ریسٹینٹ 1929 یہاں نافذ ہے جو کہ عمل درامد نہیں ہوتا لوگ یہ کہتے ہیں کہ شرعی طور پر عمر کی پابندی نہیں لہٰذا عمر کی پابندی نہیں کریں گے ۔اس پر جب تک قانون سازی نہیں کی جائے گی اور عمل درامد کروانا بھی لازمی ہے اور اس حوالے سے آگاہی نہیں دی جاتی ہے یہ معاملہ نہیں روکنے والا ۔جہاں کہیں اس طرح کا کیس ہو پولیس جاکر شادی کو روکے اور ان کے خلاف کاروائی کرے قانون کے مطابق 6 مہینے جیل ہوسکتی ہے ،والدین نکاح خواں اور شادی کرانے والوں کے خلاف ایک لاکھ تک جرمانہ ہوسکتا ہے ۔
اسرار نے مزید بتایا کہ قانون پر عمل درامد نہیں ہوتا ہمارے پاس کم عمری کی شادی کے کیسسز بھی آتے ہیں اور اکثر کورٹ بھی جاتے ہیں۔کورٹ میں شرعی قانون اور لاء میں تضاد انے کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ۔گلگت بلتستان گورنمنٹ کو قانون پر عمل درامد کرنے کی ضرورت ہے امید ہے انے والے وقت میں قانون بنے گا کیونکہ اس پر بھی کام ہورہا ہے حکومت اس مسلے کو سنجیدہ لے گی تو قانون کے ساتھ اس پر عمل درامد بھی کروایا جاسکتا ہے۔

بچپن کی شادی، ایک ثقافتی عمل سے ہٹ کر، انسانی صحت اور ترقی کا معاملہ ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ شادی میں محض اطمینان سے زیادہ ذمہ داریاں شامل ہوتی ہیں، ذہنی، جسمانی اور معاشی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد میں کامیاب شادی کے لیے ضروری پختگی کی کمی ہو سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر ان کی صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔

MICS
کے سروے کے مطابق گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں خاص کر چلاس ،داریل ،تانگیر اور کھرمنگ میں کم عمری کی شادی کا تناسب زیادہ ہے جہاں صحت کی سہولیات نہیں ہونے کے ساتھ تعلیم اور شعور کی کمی کے جس کی وجہ سے 18 سال سے کم عمری کی شادیاں زیادہ ہوتی ہیں جس کے نقصانات مردوں کو بھی ہوتے ہیں اور خاص کر خواتین کے ساتھ پیچدگیاں زیادہ ہوتی ہیں۔

کیا گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کا رجحان ہے ؟

حالیہ دنوں میں گگت بلتستان کے ضلع دیامر سے کم عمر دلہا کی ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی ہوگئ جسے عوام میں شعور اگاہی نہیں ہونے کی وجہ سے لوگوں نے مزاخ اور ہنسی کا زریعہ بنایا جو کہ قانوناً جرم ہے ۔اور اسکے بعد بھی دیامر سے کئی کیسز سامنے آئے جن کو نہ رپورٹ کیا گیا ایکشن لیا گیا نہ ہی اس حوالے سے آگاہی مہیا کی گئی۔
ایسے مسائل کے حوالے سے ہر فرد کو آگے اکر روکنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین جو کم عمری کی شادی کی وجہ سے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا انہیں بچایا جاسکے ۔

سیما کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کی اور میں نے سندھ فیسٹولا سنٹر جا کر اپنا علاج کروایا یہاں کا ماحول جنت سے بڑھ کر ہے ایسا لگتا ہے مجھے نئی زندگی ملی ہے اور میرا دوبارہ جنم ہوا ہے میں خوش ہوں اور گھر جارہی ۔
سیما کے پہلے شوہر نے اسے اس بیماری کی وجہ سے طلاق دیا تھا مگر اب اس کی دوبارہ شادی ہوگئی اور اب اپنے گھر میں خوش ہے۔

نہ صرف سیما بلکہ کئی خواتین کم عمری کی شادی کی وجہ سے اور صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں حکومت کو چاہیے کہ کم عمری کی شادی کے ایکٹ کو اسمبلی سے پاس کرکے اس کو روکا جائے تاکہ خواتین جو صحت کے مسائل کا سامنا رہتا اس میں کمی اجائے۔

شیرین کریم

شیرین کریم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ ایک فری لانس صحافی ہیں جو مختلف لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ رپورٹنگ کرتی ہیں ۔ شیرین کریم فیچر سٹوریز ، بلاگ اور کالم بھی لکھتی ہیں وہ ایک وی لاگر بھی ہیں اور مختلف موضوعات خاص کر خواتین کے مسائل ,جنڈر بیسڈ وائلنس سمیت عوامی مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر اکثر لکھتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button